غزل

غزل : سیدکامی شاہ

جو مجھ پہ چھائی ہوئی کاسنی اُداسی ہے

مِرے  عزیز ، مِری  دائمی  اُداسی   ہے

نیا ہے کون بھلا اِس خراب خانے میں
وہی ہے دِل، وہی دنیا، وہی اُداسی ہے

عجیب دل ہے یہ بے کیف حالتوں کا اسیر
کبھی ہے رنج یہاں اور کبھی اُداسی ہے

خوداپنے ساتھ بھی رہنامحال تھاجس وقت
یہ میرے ساتھ اُسی وقت کی اُداسی ہے

کہیں ملی تھی مجھے باغ میں وہ شام کے وقت
تمہارے ساتھ بھی بالکل وہی اُداسی ہے

اُداس رہنے کا کچھ تجربہ تو تھا ہم کو
مگر  یہ  آج  تو  بالکل نئی اُداسی ہے

یہ بے ثباتی ءِ دنیا، یہ شورِ عیب و ہُنر
یہ جیتی جاگتی، ہنستی ہوئی اُداسی ہے

مرے حواس پہ طاری ہے اک عجیب سی نیند
کہ جاگتے میں کسی خواب کی اُداسی ہے

سیدکامی شاہ

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. sayed kami shah

    جنوری 14, 2021

    شکر گزار ہوں سر

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں