سعید واثق
ہجر میں خون رلاتے ہو ،کہاں ہوتے ہو؟
لوٹ کر کیوں نہیں آتے ہو ،کہاں ہوتے ہو؟
جب بھی ملتا ہے کوئی شخص بہاروں جیسا
مجھ کو تم کیسے بھلاتے ہو ،کہاں ہوتے ہو؟
مجھ سے بچھڑے ہو تو محبوبِ نظر ہو کس کے
آج کل کس کو مناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
یاد آ تی ہیں اکیلے میں تمہاری نیندیں
کس طرح خود کو سلاتے ہو کہاں ہوتے ہو؟
شب کی تنہائی میں اکثر یہ خیال آتا ہے
اپنے دُکھ کس کو سناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
موسم گل میں نشہ ہجر کا بڑھ جاتا ہے
میرے سب ہوش چراتے ہو کہاں ہوتے ہو؟
سرد راتوں میں تمہیں کیسے بھلا سکتا ہوں
آگ سی دل میں لگاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
تم تو خوشیوں کی رفاقت کے لئے بچھڑے تھے
اب اگر اشک بہاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
شہر کے لوگ بھی واثق یہی کرتے ہیں سوال
اب بہت کم نظر آتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟