غزل

غزل : سعید واثق

سعید واثق
سعید واثق
ہجر میں خون رلاتے ہو ،کہاں ہوتے ہو؟
لوٹ کر کیوں نہیں آتے ہو ،کہاں ہوتے ہو؟
جب بھی ملتا ہے کوئی شخص بہاروں جیسا
مجھ کو تم کیسے بھلاتے ہو ،کہاں ہوتے ہو؟
مجھ سے بچھڑے ہو تو محبوبِ نظر ہو کس کے
آج کل کس کو مناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
یاد آ تی ہیں اکیلے میں تمہاری نیندیں
کس طرح خود کو سلاتے ہو کہاں ہوتے ہو؟
شب کی تنہائی میں اکثر یہ خیال آتا ہے
اپنے دُکھ کس کو سناتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
موسم گل میں نشہ ہجر کا بڑھ جاتا ہے
میرے سب ہوش چراتے ہو کہاں ہوتے ہو؟
سرد راتوں میں تمہیں کیسے بھلا سکتا ہوں
آگ سی دل میں لگاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
تم تو خوشیوں کی رفاقت کے لئے بچھڑے تھے
اب اگر اشک بہاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟
شہر کے لوگ بھی واثق یہی کرتے ہیں سوال
اب بہت کم نظر آتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں