یہ جو رنجور ہیں میری آنکھیں
عشق میں چور ہیں میری آنکھیں
تیرے بن کچھ نظر نہیں آتا
کتنی مجبور ہیں میری آنکھوں
تیری آنکھوں میں جھانک بیٹھی ہیں
تب سے مخمور ہیں میری آنکھیں
اک کٹاری تیری نظر کی ہے
ایک مقہور ہیں میری آنکھیں
آنسوؤں کو اٹھائے پھرتی ہیں
گویا مزدور ہیں میری آنکھیں
ان میں جب سے وہ آ بسے ہیں سعید
تب سے پرنور ہیں میری آنکھیں