غزل

غزل : سعید اشعرؔ

سعید اشعر
سعید اشعرؔ
مرے عزیز مرے مہربان بسم اللہ
تو شوق سے مرا لے امتحان بسم اللہ
تجھے کشادہ سمندر کی سیر کرنی ہے
یہ میری ناؤ ہے، یہ بادبان بسم اللہ
پلٹ کے آؤں گا اس بار بھی تری خاطر
ترا خیال  ، ترا  یہ  گمان   بسم اللہ
تم آنا چاہو تو سیدھا سا ایک رستہ ہے
ہے آبجو نہ کوئی درمیان بسم اللہ
حجاب کیسا، تکلف ہے کس لئے اتنا
یہ دل ہے آپ کا اپنا مکان بسم اللہ
ہم اپنے آپ کو ہر روز بیچتے ہیں یہاں
کھلی ہوئی ہے ہماری دکان بسم اللہ
اگرچہ پاس ہیں میرے ثبوت تیرے خلاف
قبول  ہے ترا   جھوٹا   بیان  بسم  اللہ
نمازِ عشق خشوع و خضوع سے پڑھنا
کسی نے دشت میں دی ہے اذان بسم اللہ
یہ آپ کا بھی قبیلہ ہے اب، خیال رہے
مری طرف سے مکمل امان بسم اللہ
اب اس سے آگے ذرا بھی نہیں ہے گنجائش
لگا  دیا  ہے زمیں پر  نشان   بسم اللہ
نئے سفر پہ روانہ میں ہو رہا ہوں اب
کھسک رہی ہے بدن کی چٹان بسم اللہ
ترے خلاف یہ اک لفظ بھی کرے جو ادا
میں کاٹ ڈالوں نہ اپنی زبان بسم اللہ
بڑی طویل جدائی کی رات ہے اشعرؔ
کوئی کہانی کوئی داستان بسم اللہ
سعید اشعرؔ

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں