ستیہ پال آنند
وہ مرکزہ تھا کہ شاید سبب تھا اےآنند
کہ اختتام بھی جس کاغضب تھا اے آنند
جنم جنم سے ترا ایک ہی مقدر ہے
تو ایک موتی درون ِ صدف تھا اے آنند
وہ رنگ اب بھی مرے دل میں خون روتا ہے
وہ رنگ جو کبھی تزئین ِ لب تھا اے آنند
خدا گواہ کہ میں بھی تو ابن ِ مریم تھا
میں صرف مشت ِ کف ِ خاک کب تھا اے آنند
ملا تھا نطق تو پھر بولنا ضروری تھا
سبب ِ اولیٰ تو جملہ بلب تھا اے آنند
گناہ جو بھی ہوئے تجھ سے،سب معاف ہوئے
ترا گواہ تو بس ایک رب تھا اے آنند