ترے غرور کی تجھ کو کمائی دیتا ہوں
اٹھا کے تجھ کو میں زعمِ خدائی دیتا ہوں
پھر اس کے بعد مقدر کا فیصلہ کرنا
لے اپنی ذات کی تجھ کو رسائی دیتا ہوں
ادھورے پن کی اذیت بجا سہی لیکن
میں آئینے میں مکمل دکھائی دیتا ہوں
مری حیات کے ریشے بکھیر دیتا ہے
جسے نصیب کی مشکل کشائی دیتا ہوں
اسی اسی کو خبر ہو نئے زمانوں کی
جسے جسے میں جہاں پر سنائی دیتا ہوں
میں فکر و فن کے حوالے سے عام سا شاعر
یہی بہت ہے کہ تجھ کو دکھائی دیتا ہوں
وفا کو قید سمجھتے ہو تم اگر خالد
تو آؤ اس سے بھی تم کو رہائی دیتا ہوں