صدائے عشق میں کچھ خواب ہیں ملائے گئے
ستارے ٹانک کے مہتاب ہیں بنائے گئے
میں کہہ رہا کوئی اور یہ کہے نہ کہے
گلوں میں رنگ ترے رنگ سے اٹھائے گئے
ثنائے عشق میں اک بات یہ بھی ہوتی ہے
کوئی گلہ نہیں ، لب بے صدا ہی پائے گئے
یہ بال برف ہوئے ہیں سبب تو کچھ ہو گا
ضیائے عشق میں لگتے ہیں یہ نہائے ہوئے
میں پہلی سانس سے پہلے سے تم سے وابستہ
مرے شعور میں تیرے ہی عکس لائے گئے
جنہیں بتانا ضروری نہیں سنایا گیا
بہت ضروری تھے فرمان جو چھپائے گئے
ہمیں زمیں پر بھیجا گیا مکمل تھا
بلا کے روح ، بدن خاک میں دبائے گئے
جدائی آئی مرے عشق میں انیس احمد
بروئے ذات مرے فاصلے بڑھائے گئے