چار سو پھیلی ہوئی جو یہ وبا ہے دوستو
کیا ہمارے ہی گناہوں کی سزا ہے دوستو
ایک وائرس نے زمانے کو ہلا کے رکھ دیا
سب جہانوں پر تو بس قادر خدا ہے دوستو
اب ہمیں سہنا پڑی ہیں اختیاری دوریاں
یہ ہماری بے بسی کی انتہا ہے دوستو
اس کرونے سے بچاؤ غیر ممکن تو نہیں
موت بھی اک مرض ہے جو لادوا ہے دوستو
ہو سکے تو تم ذرا اب دور ہی مجھ سے رہو
کھانستا اک شخص مجھکو چھو گیا ہے دوستو
چار دن کی زندگانی کا بھروسہ کیا کریں
ہر گھڑی اس کے تعاقب میں قضا ہے دوستو
کام آؤ تم کسی کے اس مصیبت کی گھڑی
رب سے کاروبار کا موقع ملا ہے دوستو
کیا سنائیں داستاں تم کو اجڑتے شہر کی
جس کو دیکھو خوف میں وہ مبتلا ہے دوستو
میں نے تو بس آئینہ رکھا ہے سب کے سامنے
لاکھ تم سمجھو کہ ارشد سر پھرا ہے دوستو