غزل

غزل : ارشد محمود ارشد

چار سو پھیلی ہوئی جو یہ وبا ہے دوستو
کیا ہمارے ہی گناہوں کی سزا ہے دوستو

ایک وائرس نے زمانے کو ہلا کے رکھ دیا
سب جہانوں پر تو بس قادر خدا ہے دوستو

اب ہمیں سہنا پڑی ہیں اختیاری دوریاں
یہ ہماری بے بسی کی انتہا ہے دوستو

اس کرونے سے بچاؤ غیر ممکن تو نہیں
موت بھی اک مرض ہے جو لادوا ہے دوستو

ہو سکے تو تم ذرا اب دور ہی مجھ سے رہو
کھانستا اک شخص مجھکو چھو گیا ہے دوستو

چار دن کی زندگانی کا بھروسہ کیا کریں
ہر گھڑی اس کے تعاقب میں قضا ہے دوستو

کام آؤ تم کسی کے اس مصیبت کی گھڑی
رب سے کاروبار کا موقع ملا ہے دوستو

کیا سنائیں داستاں تم کو اجڑتے شہر کی
جس کو دیکھو خوف میں وہ مبتلا ہے دوستو

میں نے تو بس آئینہ رکھا ہے سب کے سامنے
لاکھ تم سمجھو کہ ارشد سر پھرا ہے دوستو

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں