احمد نواز
سوز کو ساز کیا, وَجد کو وِجدان کیا
دل کو دالان کیا, یار کو مہمان کیا
حُجرہءِ جسم میں معمول کا سنّاٹا تھا
پھر کسی لمس کی آواز نے حیران کیا
دے دیا تیرے تصوّر کے تصرّف میں یہ دل
شمع فانُوس ہوئی, گُل کو گُلِستان کیا
تُو کبھی دے نہ سکا مجھ کو خُوشی کے آنسُو
میں نے سب کچھ تری مُسکان پہ قربان کیا
تجھ کو فُٹ پاتھ پہ شب زاد نظر آئیں گے
دن ڈھلے تُو نے خرابوں پہ اگر دھیان کیا
زندہ رہنے کا ہنر آ گیا آتے آتے
زخم کو پھول کیا, درد کو درمان کیا
مسئلہ ہجر کا پیچیدہ بہت تھا احمد
کلیہ ء صبر نے قدرے اسے آسان کیا