وہ وینٹی لیٹر پر سانسوں کی تسبیح کرنے میں مصروف تھی ۔ مشتعل دھڑکن سینے میں دھمال ڈالتے ڈالتے تھک چکی تھی ۔ نبض گہرے پانیوں میں اپنا ہاتھ ہلاتے ہلاتے ڈوب رہی تھی ۔ کرونا سے زیادہ بڑا دشمن قرنطینہ اپنے خون آلود ناخن بردار پنجوں سے اسے نوچ رہا تھا۔ بچوں سے دوری وجہِ موت بننے کیلئے دروازہ پِیٹ رہی تھی ۔ ہسپتالی وارڈ کے ایک کونے میں جالی دار بیڈ پر لاوارث بدن چراغِ سحری کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا ۔ روح پرواز کیلئے اپنے پروں کو چھٹک چھٹک کر تیار ہو رہی تھی کہ اچانک قریب المرگ دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح کوند گیا کہ ” میرے بچے اکیلے ہیں ، مجھے کرونا سے لڑنا ہو گا ”
پھر ماں نے ایک سو اسی زاویے کا ٹرن لیا اور اپنا منہ زندگی کی طرف موڑ کر دوبارہ اپنا سفر شروع کر دیا ۔