ديگر

کچھ باتیں شاعری کے حوالے سے : یوسف خالد


شاعری ایک مؤثر ترین ذریعہ اظہار ہے ہر زبان کے ادب میں شاعری کا حصہ بہت نمایاں ہے- عمومآ یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاعر پیدا ہوتے ہیں محنت سے شاعری میں نکھار ضرور آتا ہے لیکن اگر شاعری کا جوہر انسان میں نہ ہو تو شعر کہنا مشکل عمل ہے اور یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے – شاعر کی بات کو سمجھنے کے لیے ایک خاص طرح کے ادبی ذوق کی تربیت کا ہونا ضروری ہے – تعلیمی اداروں میں شعر و ادب کی اہمیت اور اسے سمجھنے کی تربیت دی جاتی رہی ہے – اور معاشرے کے افراد شعر سے لطف حاصل کرتے رہے ہیں – جس کے باعث ان کی جذباتی گھٹن کو کم کرنے میں مدد ملتی رہی ہے – شعر و ادب کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ انسانی جذبوں اور احساسات کو جس مؤثر انداز میں شعرا نے بیان کیا ہے اس کا کوئی اور متبادل نہیں – ادب کی دیگر اصناف نے بھی بلا شبہ یہ خدمت انجام دی ہے – لیکن شاعری کو فوقیت حاصل رہی ہے –
موجودہ دور میں ہمارے ہاں شعر فہمی میں بہت تکلیف دہ حد تک کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل اپنے علمی، ادبی و ثقافتی اثاثے سے بے خبر ہو رہی ہے – اس کی وجوہات اگر تلاش کی جائیں تو بہت کچھ سامنے آتا ہے جو ہماری کوتاہیوں کا عکس پیش کرتا ہے –
ایک تو یہ تصور معاشرے میں عام کیا گیا اور شاید سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا کہ شاعری فضول مشغلہ ہے اور یہ بے کار لوگوں کا کام ہے – یہ
محض خیالی باتیں ہیں اور فی زمانہ ان کی ضرورت نہیں –
دوسری سظح پر زبان پر کاری ضرب لگائی گئی اور بچوں کے لیے انگریزی اہم قرار دی گئی اور اردو کو ثانوی حیثیت ملی – اور یہ تاثر دیا گیا کہ اردو دور جدید کے علوم سے
ہم رشتہ نہیں ہو سکتی –
تیسری سظح پر ریاست نے انگریزی کو ترجیح بنیادوں پر اختیار کیا اور قومی زبان کو زبردست نقصان پہنچایا جو ابھی تک جاری ہے –
چوتھی سظح پر فلموں، ڈراموں اور دیگر حوالوں سے شاعروں کا تمسخر اڑایا گیا – ان کی نقلیں اتاری گئیں – یہ سلسلہ بھی ابھی تک جاری ہے –
پانچویں سطح پر سوشل میڈیا پر ہر بڑے شاعر سے غیر میعاری اور فنی طور پر انتہائی کمزور کلام منسوب کیا گیا –
اس کے علاوہ شاعری کو تفریح کا ذریعہ بنایا گیا اور بہت تواتر سے مزاحیہ شاعری کو فروغ دیا گیا گیا – جس میں مزاح کم اور تہذیب سے گرے ہوئے اشعار کی بھرمار تھی – یہ سلسلہ بھی ابھی تک جاری ہے – اور بہت سے سنجیدہ شاعر بھی اسے مقبول جنس سمجھ کراپنا رہے ہیں – مذکورہ بالا وجوہات پر غور کریں گے تو مزاحیہ مشاعروں کی طلب کا اندازہ ہو جائے گا – نوجون نسل کی ذہنی سطح اتنی پست کر دی گئی ہے کہ سنجیدہ شعر ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا – کالجز اور یونیورسٹیوں میں جو مشاعرے ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ نئی نسل میں کیسی شاعری مقبول ہو رہی ہے –
ایک دفعہ ہمارے بہت پیارے دوست پروفیسر ریاض شاد صاحب کو یونیورسٹی کے وی سی بلایا اور کہا کہ ایک مشاعرے کا اہتمام کریں – اور کچھ مشہور شاعر بلائیں – شاد صاحب نے کہا جی ٹھیک ہے اور اگر اجازت ہو تو کچھ معقول شاعر بھی بلا لیں – جس پہ ایک زور دار قہقہہ لگا – یہ تو خیر ایک واقع تھا – جہاں کہیں بھی مشاعرہ ہوتا ہے کچھ شعرا کی شمولیت لازم قرار دی جاتی ہے کہ مشاعرہ کامیاب کرنا ہے – شعری ذوق اور جمالیاتی حظ کی کوئی اہمیت نہیں گویا مشاعرہ اب ایک تفریحی سر گرمی بن چکی ہے – اللہ بھلا کرے ان لوگوں کا جنہوں نے ابھی بھی شاعری کے حقیقی ذوق کو فروغ دینے کے لیے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے –
اس سال تین مشاعرے ایسے پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں عمدہ اشعار بھی سنے اور جچی تلی داد کا بھی مشاہدہ ہوا – ایک مشاعرہ چکوال میں ہوا تھا جس کا چکوال کے ایک کیبل نیٹ ورک ( اوشین کیبل نیٹ ورک ) کے منتظم خواجہ بابر سلیم اور عرفان خانی و صفی الدین صفی نے اہتمام کیا تھا – اس مشاعرے میں بہت عمدہ شعر سننے کو ملے اور چکوال کے لوگوں کا عمدہ شعری ذوق دیکھنے کو ملا – اسی روز پیر ظفر کاظمی کی رہائش گاہ پر بھی ایک خوبصورت شعری نشست ہوئی – جس کا لطف ابھی تک قائم ہے-
دوسرا مشاعرہ مندرہ میں عالمی ادب اکادمی کے تحت ہوا جس کے روحِ رواں عرفان خانی تھے یہ مشاعرہ اگرچہ اس علاقہ میں پہلا مشاعرہ تھا مگر لطف سے بھرپور اور انتہائی منظم و شاندار مشاعرہ تھا سامعین کا انہماک دیدنی تھا –
اسی طرح گزشتہ دنوں رائٹرز کلب دینہ میں صدیق سورج اور شہزاد قمر نے ایک انتہائی یاد گار مشاعرہ کروایا – دینہ کے سامعین نے شعر فہمی کا حق ادا کر دیا – اس مشاعرہ میں ہر شاعر نے بہت عمدہ کلام سنایا – نوجوانوں نے بہت خوبصورت اشعار سنائے –
میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ لوگ جو پورے خلوص سے ادب کی خدمت کر رہے ہیں ان کا دم غنیمت ہے – کہ ان کی وجہ سے شعر کی فکری توانائی اپنا تاثر قائم کر رہی ہے –
میری تمام شعرا سے گزارش ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنا کردار بڑھائیں اور جہاں کہیں املا کی اغلاط ہیں ان کی نشان دہی کریں – نوجوانوں کے شعری ذوق کی تربیت کریں –

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

ادب ديگر

اعزاز

  • اگست 8, 2019
از : سنیہ منان ایوان صدر مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔یوم آزادی کی آمد آمد تھی ۔ حکومتی
ادب ديگر

حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کی پیش گوئیاں

  • اگست 9, 2019
 از:  ڈاکٹرمعین نظامی (بشکریہ جناب ناصرمحموداعوان)                 حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی(