یادیں

قرۃ العین حیدر( عینی آپا) … کچھ یادیں،کچھ باتیں : ڈاکٹرستیہ پال آنند

قرۃ العین حیدر ( عینی آپا) سے آخری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ میں پاکستان کے ایک ماہ کے دورے سے لاہور، پنڈی، میر پور، پشاور، سرگودھا، کراچی ہوتاہو ا لوٹا تھا۔ دہلی میں سات دنوں کے لیے ایک ایسے مہمان خانے میں مقیم تھا، جس میں ایک دوست کی کار بھی میری تحویل میں تھی۔ عینی آپا کو فون کیا تو بہت خوش ہوئیں۔ دوسری صبح کا وقت مقرر ہوا۔ میں پہنچا تو ریحانہؔ ملی۔ ریحانہ اور عینی کا رشتہ مالکن اور نوکرانی کا نہیں بلکہ ماں اور بیٹی کا ہے۔ وہ ان کو نہلاتی ہے، سر پر مہندی کی رنگت کی تیزی یا ہلکے پن کا خیال رکھتی ہے، کپڑے استری کرتی ہے، کھانے پینے کا خیال رکھتی ہے۔ فالج دائیں طرف گرا تھا، اس لیے ابھی فعال تھیں۔ بول کر لکھواتی تھیں، ایک نوجوان صبح اور ایک شام کو ان کے فلیٹ میں ڈکٹیشن لینے کے لیے آتا تھا۔ جب ٹائپ کر کے لاتا، تو اس کی پروف ریڈنگ خود کرتی تھیں۔

میں ان کے پاس دو گھنٹے ٹھہرا۔ بیچ بیچ میں بولتے بولتے وہ تھک گئیں، تو مجھے کہنے لگیں،’’اب تم کچھ کہو۔‘‘ جن امور پر بات ہوئی، ان میں ایک سر فہرست رہا، اور ہم بار بار اس کی طرف لوٹ کر آتے رہے۔ یہ امر تھا ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں پاکستان میں ’’آگ کا دریا‘‘ کے تناظر میں ایک فضول قسم کی گرما گرمی ، جس میں ان کے مخالفین نے یہ الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتیں، اور ’’آگ کا دریا‘‘ در اصل پاکستان نہیں، بلکہ ’’ہندو ستان، یعنی بھارت‘‘ کی تاریخ کو کھنگالتا ہے۔

وہ پاکستان میں بسنے کے ارادے سے گئی تھیں، لیکن اس قسم کی گفتگو نے، جو بآواز بلند تقاریب میں اور اخباروں یا ادبی رسالوں کے اداریوں میں کی گئی، ان کے دل کو اچاٹ کر دیا، اور وہ انڈیا لوٹ آئیں۔ کہنے لگیں، ’’کسی کا کیا قصور تھا؟ اس وقت ’ادب برائے اسلام ‘ کے ریلے میں کچھ پرانے ترقی پسند ادیب بھی بہہ گئے تھے۔‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن یہ بات تو انتظار حسین نے کہی تھی کہ آپ نے ’’آگ کا دریا‘‘ میں تقسیم ہند کو ہندو مسلم مشترکہ ورثے کی شکست قرار دیا، اور انتظار حسین تو ادب برائے اسلام کا حامی نہیں ہے۔‘‘ بولیں، ’’ہوں، یہ بات تو درست ہے، لیکن جو کچھ اس نے کہا تھا ،اس کو صحیح تناظر میں سمجھا ہی نہیں گیا، اور اس بات کو مان لیا گیا کہ میں اینٹی پارٹیشن ہوں۔‘‘ پھر کہنے لگیں، ’’اچھا ہی ہوا، میں لوٹ آئی۔ وہاں بہت دوست احباب تھے، لیکن سبھی بے بس۔ یوں بھی اس معاشرے میں اکیلی عورت کے لیے، جولکھتی بھی ہو، اور بھی ہو،مجلسی عادات رکھتی ہو، رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ۔یہاں میں ایک بھرپور زندگی جی سکی ہوں۔‘‘

میں نے ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ کا ذکر کیا اور کچھ کہنے ہی والا تھا، کہ وہ بول اٹھیں، ’’اب لوگوں کو بھی میری درازیء عمر کے ختم ہونے کا انتظارنہیں کرنا پڑے گا، اللہ تو کیا کرے گا ۔۔

میں نے رخصت چاہی کہ گیسٹ ہاؤس کی کار کی واپسی کا وقت مقرر تھا۔ بولیں، ’’گڈ بائی۔۔‘‘ ’بائی‘ کو انہوں نے یوں لمبا کر کے ختم کیا کہ ان کی سانس ہی اٹک گئی اور وہ کھانسنے لگیں۔ میں رک گیا، لیکن ریحانہ نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ میں خاموشی سے رخصت ہو جاؤں۔ پانی سے بھرے کپ میں ایک چمچ دوا ملا کر پلاتی ہوئی ریحانہ کی اور عینی آپا کی وہ تصویر اب تک میرے دل پر نقش ہے اور مجھے ساحرؔ لدھیانوی کی چار سطریں یاد آ رہی ہیں۔

ہر چیز تمہیں لوٹا دی ہے
ہم لے کے نہیں کچھ ساتھ چلے
پھر دوش نہ دینا ، جگ والو
ہمیں دیکھ لو، خالی ہاتھ چلے
(میری ذاتی ڈائری کا اندرج )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َ ـــــ ــــــــــــــــــــــََ

بمبئی۔ عینی آپا سے پہلی ملاقات ان کے رسالے کے دفتر میں ہوئی۔ میں اپنے ہم زلف کے گھر سے (جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا) تین بسیں بدل بدل کر بمشکل تمام پہنچا۔ مجھے عینی آپا سے ’’ٹربیون‘‘ چنڈی گڑھ کے لیے ، ان کے ناول ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملنے پر، انٹرویو لینا تھا، اور اس کے لیے انہوں نے مجھے ورکنگ لنچ پرہی اپنے دفتر میں دعوت دی تھی۔

مجھے پہلی نظر میں وہ بے حد حسین لگیں۔ (تب تک انہیں آپا کہنے کا رواج ابھی ’’روش عام‘‘ نہیں ہوا تھا!) کشادہ پیشانی لیکن آنکھوں تک پہنچتے پہنچتے ذرا سی خمیدہ، تلوار کی سی کاٹ رکھتی ہوئی تیز زبان، جسم کی خاموش زبان میں آنکھوں، بھوؤں اور پیشانی کے اتار چڑھاؤ، لبوں کی سکڑن یا پھیلاؤ، ہاتھوں کی مضطرب حرکت ۔۔میری گستاخ نظروں نے ان کے متناسب جسم کو ایک مرد کی آنکھوں سے دیکھا۔

آپ ملک راج آنندؔ کے کچھ لگتے ہیں؟‘‘ یکلخت یہ سوال پوچھ کر انہوں نے مری گستاخ نظروں کو جیسے وہیں روک دیا اور تب مجھے احساس”ہوا کہ مجھ جیسے ’’دل پھینک‘‘ لوگوں کوایک ہی سوال سے بوکھلا دینے کا فن انہیں آتا ہے۔

جی نہیں، لیکن میں انہیں مُلک چچا کہہ کر بلاتا ہوں۔ ویسے بھی ہماری یونیورسٹی میں ٹیگور پروفیسر کے طور پران کے آنے کے بعد مجھ جیسے نوجوان عادتاً انہیں چچا مُلک ہی بلاتے ہیں۔

پھر ا ن کے استفسار پر کہ مجھے ان سے کیا پوچھنا ہے، میں نے درجنوں سوال کیے، لیکن بقول ان کے، ہر سوال گھوم پھر کر ایک ہی زمرے میں آ جاتا تھا، کہ ورجنیا ولف اورجییمز جوائس کے طرز تحریر میں لکھے ہوئے ان کے ناول کیا اردو ادب پر ایک مغربی پیوند کاری نہیں ہے؟ اور ان کا جواب ہر بار ایسے ہی کانٹوں سے بھرا ہوا تھا جیسے کہ وہ مجھے یہ سمجھانے کا جتن کر رہی ہیں، کہ اے انگریزی کے پروفیسر ، خدا کے لیے یہ بات سمجھ، کہ اسلوب ایک طرف، اور موضوع، مضمون اور متن دوسری طرف، کیا ایک ناولسٹ کو ان دو چیزوں کو الگ الگ نہ رکھ کر صرف یہ یقینی نہیں بنا سکتا کہ اس کا طرز تحریرایسا ہو کہ اسے ایک کے لیے دوسرے کی قربانی نہ دینی پڑے۔ لیکن اردو کا قاری تو کیا، ایک دو کو چھوڑ ر اردو کا نقاد بھی اس سے آ گاہ نہیں ہے۔

آگ کا دریا‘‘ کو عینی آپا کا “میگنم اوپس” یعنی عظیم ترین ناول کیوں سمجھا جاتا ہے، اس کا علم مجھے اس انٹرویو کے وقت ہی ہوا۔ عینی نے کئی سوالوں کا جواب جھلا کر مجھے دیا لیکن با ت میری سمجھ میں آ گئی۔ ’’آگ کا دریا‘‘ زمانوں، بلکہ قرنوں پر محیط ہے۔ یہ تاریخ اور وقت کو بر صغیر کے جغرافیہ سے منسلک کرتا ہوا ایک ایسا تاریخی گوشوارہ ہے، جو چوتھی صدی عیسویں سے شروع ہوتا ہے، اور آزای کے بعد، یعنی ہندوستان اور پاکستان کے دو الگ الگ ملکوں کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے وقت تک آگے بڑھتا ہے۔ زمان اور مکان کے اس پھیلائو کو سمیٹنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ناولسٹ صدیوں پر محیط اس سفر کے راستوں پر آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکے، آس پاس کی پگڈنڈیوں پر گامزن ہو، پیچھے مڑ کر دیکھے اور پھر اپنی کہانی کو سمیٹتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ مجھے آج تک عینی کا ایک جملہ نہیں بھولتا۔ ’’ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کچھ لوگ آج بھی ہندوستان کی تاریخ کو میر قاسم کے سندھ پر حملے سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے پہلے کی تاریخ اور عرب کے دور جاہلیت کی تاریخ میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘ ان کا جملہ انگریزی میں تھا، لیکن جب میں نے کہا کہ تاریخ ایک تسلسل ہے، تو انہوں نے پھر کہا

ـYes, it is a continuum and the sooner we know this truth, the better it would be for all of us, and damn it, my novel
encompasses four thousand years

آج جب میں باز آفرینی کے طور پر اس انٹرویو کو یاد کرتا ہوں، تو مجھے عینی آپا کی بات یاد آتی ہے۔ میرے انگریزی کے پروفیسر ہونے کی وجہ سے یا میری ذہنی تربیت کو صیقل کرنے کے لیے انہوں نے ایک انگریزی نقاد کا جملہ دہرایا تھا۔ اس نقاد نے ورجنیا ولفؔ اور جیمز جوائسؔ کی شعوری رو کے بارے میں اور وقت کی رفتار کے نا منقسم ریلے کے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کے بارے میں کہا تھا۔

You can stand still in Time and move back and forth in Space,or stand still in Space and move back and forth in Time.

بعینہ یہی فارمولہ عینی آپا کے ناولوں پر مطلق ہوتا ہے۔ ’’ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ‘‘ نے اس کتاب کے انگریزی ترجمے پر تبصرے میں ایک ناقابل
فراموش جملہ لکھا تھا، جسے میں یہاں درج کر رہا ہوں۔
River of Fire is to Urdu fiction what A Hundred Years of Solitude is to Hispanic literature.
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی سطح پر عینی آپا کی وہی حیثیت ہے جوملان کندیراؔ کی ہے۔ ’چھٹ بھیئے‘ عینی کی گرد کو بھی نہیں ّپہنچتے۔ ( ذاتی ڈائری کا اندراج : نومبر ۱۹۶۷ عیسوی۔ بمبئی، انڈیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت بڑا جمگھٹا تھا۔کم از کم ایک سو سے کچھ اوپر لوگ تھے۔ واشنگٹن، ڈی سی (امریکا) کے میری لینڈ کے نواحی بلدیاتی علاقے میں ڈاکٹر عطیہ خان کا گھر ایسا گھر نہیں تھا، جسے صرف گھر کہا جائے ۔ یہ ایک بنگلہ نما محل تھا۔ بڑے کمرے میں، عین سامنے دیوار پر کوئی تین فٹ کے سائز میں ایک تصویر تھی، جس میں فیض احمد فیضؔ اور احمد فرازؔ ’یک جان دو قالب‘ والے محاورے کی زندہ مثال بنے بیٹھے ہوئے تھے ،ڈاکٹر عطیہ کے نفیس ذوق اور شاعر نوازی کی ایک مثال ، لیکن مجھ جیسے بت شکن محمود غزنوی کے لیے کوئی بھی سومنات ہو، میرا تیشہ ہمیشہ میرے ہاتھ میں رہتا تھا۔ اس لیے جونہی ذرا سی مہلت ملی، سامنے کے صوفے پر بیٹھی ہوئی عینی آپا سے میں نے کہا، ’’وہ تصویر دیکھی ہے آپ نے؟‘‘ مسکرائیں زیر لب، ایک خمیدہ تبسم ۔ بولیں، ’’تم کہیں بخشو گے بھی ان دونوں کو؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں آپا، مجھے تو ساقیؔ فاروقی کی ایک بات یاد آ گئی۔ اس نے دونوں کو لندن کے اپنے ہی گھرمیں اکٹھے بیٹھے دیکھ کر کہا تھا، ’اب تم دونوں جڑواں تو لگتے نہیں، لیکن یہ فرازؔ تم سے اتنا کم عمر ہوتا ہوا بھی تمہارا نقّال، جسے تم پنجابی ’نقلچی‘ کہتے ہو، اس حد تک ہے کہ اگر تم اپنی کسی نظم یا غزل میں ایک بار ’جاناں‘ لکھو گے، تو یہ تمہارے تتبع میں، لیکن تم سے بازی مار لے جانے کے لیے، دو بار ’جاناں جاناں‘ لکھے گا۔‘‘

تم تو وہاں موجود نہیں تھے، کہاں سے سنی تم نے یہ بات؟‘‘ عینی میں موقع واردات پر موجود نامہ نگار کی روح حلول کر آئی۔
آپا، خفا مت ہوں مجھ سے۔ ساقیؔ نے ہی مجھے بتائی تھی!‘‘ اور اس سے پیشتر کہ وہ کچھ اور کہہ سکیں، میں نے ایک لقمہ اور دیا تھا۔ ’’ساقی ؔنے فیضؔ کو یہ بھی کہا تھا، کہ اس کے سگریٹ کی راکھ جھاڑنے کا اندازبھی تمہاری نقل ہے۔ اس طرح یہ فیضؔ تو بننے سے رہا، فرازؔ بننے کا نصب العین بھی کھو بیٹھے گا۔
’’بخش دو ان دونوں کو اب!‘‘ آپا نے حکم دیا، ’’کوئی اوربات کرو ۔۔۔لیکن غزل کی مخالفت کی بات نہیں۔۔‘‘
پاس بیٹھے ہوئے کئی احباب (صغرا مہدی بھی اتفاقاً موجود تھیں) مسکرائے تھے، کیونکہ اب جھینپنے کی میری باری تھی۔
(ذاتی ڈائری کا اندراج ۔ میری لینڈ، امریکا ۔ ڈاکٹر عطیہ کا دولت کدہ، ۱۹۹۸ء)

’چار پانچ برس بڑا ہونا تو کچھ بھی نہیں۔۔۔‘‘ عینی آپا نے کہا تھا ، ’’۔۔۔اور پھر جب ہماری عمر ستّر سے بڑھنے لگتی ہے، تو چار پانچ تو کیا، دس بارہ برس بھی کسی گنتی میں نہیں آتے۔ اور پھر وہ محاورہ بھی تو ہے، عمر بہ عقل است نہ بہ سال!‘‘ پھر فوراً ہی تصحیح کر دی، ’’عقل ہیں،’بزرگی‘ ہے یہاں، لیکن دونوں کا مطلب تو ایک ہی ہے نا؟‘‘

میں نے کہیں غلطی سے یا جلدی میں یہ کہہ دیا تھا کہ میں ان سے چار پانچ برس چھوٹا ہوں۔

لیکن عینی آپا بخشنے والی نہیں تھیں۔ ’’اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو!ـ‘‘ اور پھراسی سانس میں بولتی چلی گئیں۔ ’’اب خوشونتؔ مجھ سے کافی سینئر ہے، لیکن میں نے کبھی اسے ’ تو ‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔‘‘ پھر جیسے ایک خیال کی پیٹھ پر دوسرے کو لادتے ہوئے بولیں، ’’لیکن خوشو نتؔ سے بات ہمیشہ انگریزی میں ہوتی ہے،‘‘ ایک لحظہ توقف کیا ، پھر مزید ایک پھلجھڑی میری طرف پھینکی، ’’یہ نہ سمجھنا کہ صرف تم ہی انگلش کے پروفیسر ہو اور اس کی سے گرائمرسے واقف ہو۔
بزرگی اور عقل اور عمر والے محاورے کے سلسلے مجھے پھر بھی خوف رہا کہ اگر تصحیح در تصحیح کر دوں، تو برا نہ مان جائیں۔ برا تو خیر نہیں مانتی تھیں، لیکن موڈ بدل لیتی تھیں۔
فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف صغرا مہدی تھیں۔ چونگے پرہاتھ رکھ کر بولیں، ’’اب لمبی بات چیت ہو گی۔ تم اپنے لیے ایک کپ چائے اور بنا لو۔ میرے لیے مت بنانا۔۔۔۔‘‘
(ذاتی ڈائری کا اندراج : سین ۔ نوئڈا، ان کا اپارٹمنٹ۔۱۹۹۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن لوگوں نے ’’آگ کا دریا‘‘ اور اس کے بعد کے تین ناول پڑھے ہیں، وہ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ جہاں کئی حالتوں میں ’’آگ کا دریا‘‘ عام قاری کے لیے نا قابل عبور ہو جاتا ہے،وہاں ’’آخر شب کے ہمسفر‘‘، ’’گردش رنگ چمن‘‘ اورآخری ناول ’’چاندنی بیگم‘‘ کا پڑھنا نسبتاً آسان ہے۔ یہ شاید ایک لا شعوری عمل تھا جس کے تحت انہیں اپنی تحریر میں عام فہم ، روز مرہ کی زبان کا استعمال (جو پہلے کم کم تھا) لے آنے کی ضرورت پیش آئی۔ امریکا میں ہوئی بات چیت کے دوران میں تو ڈاکٹر عطیہ کے گھر میں درجنوں اشخاص ہمارے آس پاس صوفوں پر بیٹھے تھے، اور وہاں سنجیدگی سے ساتھ بات چیت ہو ہی نہیں سکتی تھی ، خاص کر جب انہوں نے شروع سے ہی میرے ساتھ ایک تحمکانہ لہجہ اختیار کر لیا تھا (اور میں نے اسے معصومیت سے قبول کر لیا تھا)، لیکن اب ان کے اپارٹمنٹ میں صرف ہم دونوں تھے ،اس لیے اپنے گستاخ لہجے میں یہ پوچھنے میں کچھ برا نہیں لگا ، کہ کیا وجہ ہے کہ ’’آگ کا دریا‘‘ کے ٹائٹل میں کوئی اضافت نہیں تھی ، یعنی اسے ’’دریائے آتش‘‘ یا ’’جوئے آتش‘‘ بھی کہا جا سکتا تھا، لیکن بعد کے ناولوں میں اضافتیں موجود ہیں۔ ’’آخر شب کے مسافر‘‘ میں ایک اضافت ہے، جب کہ ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں دو ہیں۔ کچھ حیرت زدہ سی رہ گئیں تھیں عینی آپا! کہنے لگیں،’’ میں نے اس طرف کبھی دھیان نہیں دیا، لیکن تم پروفیسر لوگ تو مین میخ نکالتے ہی رہتے ہو ۔‘‘ اور تب میں نے وہ بات کہی جو میں بہت پہلے کہنا چاہتا تھا۔ ’’بر عکس اس کے، ان ناولوں کے اسلوب میں زبان کا روز مرہ سے انسلاک ایک قدرتی بہاؤ کی طرح ہے، جو’’ آگ کے دریا‘‘ میں نہیں تھا۔ یعنی آپ کو ، لا شعوری طور پر ہی سہی، یہ احساس ضرور ہوا ہے کہ ان ناولوں کے پڑھنے والے اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، اور وہ چاہے وقت اور فاصلے کی قلابازیو ں کو برداشت کر لیں، زبان کے سلسلے میں ناول نگار سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
بہت بڑی بات کہہ گیا تھا میں! وہ مسکرائی تھیں ، اور دیگر سننے والوں سے (بے نیاز نہیں بلکہ با نیاز) مجھے کہنے لگیں۔ ’’تم اس پر ایک مضمون لکھو تو مجھے ایک نقل ضرور بھیجنا۔ اب چونکہ میں مختصر افسانے بہت کم لکھتی ہوں، بلکہ لکھتی ہی نہیں، اس لیے رسالے مجھ تک نہیں پہنچتے۔ مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
( ذاتی ڈائری کااندراج : سین ، نوئڈا، ان کا اپارٹمنٹ۔ ۲۰۰۰۔ عیسوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرۃالعین حیدر، یعنی عینی آپا،کو انگریزی ہجوں میں عینی آپا بنا لیا گیا تھا، اس لیے کہ انگریزی میں یکے بعد دیگرے، یعنی ایک کے بعد پھر ایک اور “اے” سے الفاظ شروع نہیں ہوتے، اور اینی ؔ یا عینی ؔ تولڑکیوں کا ایک عام نام ہے۔

ایک معروف اہل قلم سجّاد حیدر یلدرم کی صاحبزادی، ناز و نعم میں پلی ہوئی،بے حد حسین و جاذب نظر، متناسب خال و خد، جو اگر انگریزی میں لکھتی تو اس کا نام اور کام عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا اور” بُکر پرائز” تو کیا ، شاید” نوبل پرائز” کی بھی حقدار مانی جاتی۔ جب اردو، یعنی ’’ایک نادار ملک کی نادار زبان ‘‘ (فیضؔ) کا پلّو پکڑ کر یہ لڑکی جوان ہوئی، تو یہ زبان شاعری میں تو نہیں، لیکن فکشن کے تناظر میں ابھی ایام طفلی میں تھی۔ یہ اس خاتون کی ہمت تھی کہ اس نے وہ راستہ اختیار کیا جو ترقی پسندی کا راستہ نہیں تھا، (’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے!) اور جسے ترقی پسند نقادوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔

لکھنو کے ازیبلا تھوربرن کالج کا گریجئویٹ ہونا خود میں ہی ایک بڑی بات تھی، لیکن عینی کی نظر تو دور اس افق پر ٹکی ہوئی تھی، جسے اسے سر کرنا تھا۔ہجرت کر کے پاکستان پہنچی، کہ اس نئے ملک کو تو اس جیسے معماروں نے ہی تراش کر ایک نئے روپ میں سجانا تھا، لیکن مارشل لاء کے بعد، اور مقامی اہل قلم کا بدلتا ہوا وہ رجحان دیکھ کرجو ادب برائے اسلام کی طرف جھک گیا تھا، ہندوستان لوٹ آئی۔ یہاں آ کر کھلی فضا میں سانس لیا۔ ایک انگریزی رسالے “اِمپرنٹ ” کی مدیرہ کے طور پر ۱۹۶۴ سے ۱۹۶۸ تک کام کیا، پھر اپنی دل پسند ملازمت، یعنی السٹریٹد ویکلی آف انڈیا میں خوشونت سنگھ کے ساتھ سات برسوں تک رہی۔ وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر کئی یونیورسٹیوں، اور شہروں، مثلاًکیلیفورنیا، شکاگو، وسکانسن، اور ایریزونا میں تدریسی فرائض سر انجام دئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی کی خان عبدالغفارخان چیئرکی پروفیسر امیریٹس رہی۔ ناول لکھے، افسانے لکھے، لیکچر دیے، سیمیناروں میں شرکت کی اور وہ سب کچھ کیا جو وہ کرنا چاہتی تھی۔ ’’پاکستان میں رہ کر میں کیا کرتی؟ ایک غیر
شادی شدہ عورت اس معاشرے میں ایک فاضل پرزہ بھی ہے اور شک کی نظر سے بھی دیکھی جاتی ہے۔

انعاموں اور ایوارڈوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ میں پورے تو چیک نہیں کر پایا، مگر جو یاد آ رہے ہیں، وہ لکھ رہا ہوں۔ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ، بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ ۱۹۸۹ء میں ان کے ناول ’’آخر شب کے مسافر‘‘ پر ملا۔ اس سے بہت پہلے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ مل چکا تھا۔ سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ۱۹۶۹ ء میں دیا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں غالب ایوارڈ تفویض ہوا۔ ۲۰۰۵ء میں سرکار ہند کی طرف سے’ پدم شری‘ دیا گیا۔ کچھ برسوں کے بعد انہیں ’پدم بھوشن ‘دیا گیا جو ایک ہندوستانی شہری کے لیے تیسرے نمبر کا سب سے بڑا اعزازہے۔ ’’روپے تو ، ظاہر ہے استعمال میں لائے جاتے ہوں گے، مگر ان شیلڈوں اور “پلاقس” کا آپ کرتی کیا ہیں۔؟‘‘ میں نے پوچھا تھا۔ ’’سجا کر رکھتی ہوں۔۔۔تم ان کا کیا کرتے ہو؟‘‘ ترکی بہ ترکی “سوال در جواب” تھا۔

عینی آپا نے ایک درجن ناول اورچار افسانوی مجموعے لکھے۔بہت سا کام ایسا کیا جو ترجمے کے زمرے میں آتا ہے۔عیسوی۹۴۸ 1 میں جب ان کی عمر صرف ۲۲ برس کی تھی، ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ چھپا۔پھر اس کے بعد کتابوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ’’شیشے کے گھر‘‘ اور ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ نے انہیں بام عروج پر پہنچایا ۔ ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں ناول نگار نے سارے عالم کی مختلف النوع تہذیبوں کو یکجا کر کے ، ایک معمہ در معمہ بنا کر پیش کیا ہے۔ اس ناول کی خوبصورتی یہ ہے کہ بغیر کسی نتیجے پر پہنچے، یہ ناول ختم ہو بھی جاتا ہے اور نہیں
بھی ہوتا، کیونکہ زندگی تو بہرحال کسی نقطۂ اختتام تک پہنچ کر بھی ختم نہیں ہوتی۔

جو چار مختصر ناول لکھے ، ان میں ’’سیتا ہرن‘‘، ’’چائے کا باغ‘‘، ’’دلربا‘‘، ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘‘ شامل ہیں۔ مجھے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ایک غیر رسمی بات چیت میں کسی داڑھی والے صاحب نے (مجھے نام کا علم ہے لیکن بہتر ہے کہ یہ مخفی رہے) ان سے ایک بے ہودہ سوال کیا تھا۔ سوال یہ تھا، ’’محترمہ، آپ نے اس ناولٹ کے ٹایٹل میں اگلے جنم کی بات کہی ہے، تو کیا آپ ہندئووں کے آوا گون کے عقیدے میں یقین رکھتی ہیں؟‘‘ چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں شدید غصے کی ایک چمک آئی اور ان کا بدن کانپنے لگا، پھر بسیار دقّت سے انہوں نے خود پر کنٹرول کر لیا اور مسکرائیں، بولیں، ’’ اگرمیں اس عقیدے میں یقین رکھتی ہوں تو کیا آپ میرے خلاف ایک فتویٰ صادر فرما دیں گے؟‘‘ جب کھسیانا سا وہ شخص اٹھ گیا تو بولیں، ’’خدا جانے کیسے کیسے لوگ بلوا لیے جاتے ہیں مجھ سے ملنے کو ۔۔

سیتا ہرن‘‘ کے بارے میں ایک دلچسپ بات یاد آ رہی ہے۔۔ یہ بات اب مجھے یاد نہیں ہے کہ کب ہوئی تھی، لیکن جب میں نے اس ناول میں سیتاؔ کے علامتی معانی کے حوالے سے ان کی اجازت سے انہیں اپنی ایک مختصر نظم سنائی جس کا نفس مضمون یہ تھا کہ حیرت ہے، رام چندرکے دربار میں اگنی پریکشا کے بعد جب سیتا نے دھرتی ماں سے فریاد کی اور زمین کا سینہ شق ہو گیا اور وہ اس میں سما گئی تو کیا ایک لمحے کے لیے رام نے کچھ سوچا بھی تھا کہ وہ (یعنی آکاش) اور سیتا (یعنی دھرتی) آپس میں کبھی مل بھی سکیں گے؟ دو لمحوں کے توقف کے بعد بولیں،’’ جب میری سیتا عرفانؔ کو یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے عرفانؔ نے ایک گوری سے نار منڈی میں شادی کر لی، تو شایداس نے بھی یہی سوچا ہو گا کیونکہ عرفانؔ تو رامؔ ہے اور دنیا میں ناریوں کی منڈیاں بہت ہیں۔
میں ہکا بکا رہ گیا تھا، کیونکہ میں نے جغرافیائی نام ’نار منڈی‘ کے علامتی معنی کی اہمیت پر کوئی غور نہیں کیا تھا، اور عرفان ؔ کے لغوی حوالے کے ساتھ ساتھ اس لفظ کے علامتی معنی کو بھی در گذر کر گیا تھا۔

بہت کم لوگ ہنری جیمزؔ کے ناول دی پورٹریٹ آف اے لیڈی کے ترجمے ’’ہمیں چراغ ہمیں پروانے‘‘ کا ذکر کرتے ہیں لیکن میں چونکہ ہنری جیمزؔ کا ناول ایم اے کے کورس میں پڑحاتا رہا ہوں، مجھے ان کے ترجمے کے ہنرکی بابت بھی کچھ کہنا ہے۔ شاعری کا ترجمہ تو لگ بھگ نا ممکن ہے، آپ لفظ بلفظ ترجمہ کریں تو شاعری کی روح عنقا ہو جائے گی، اس لیے آپ کو دوبارہ تخلیق کرنا پڑتا ہے، لیکن نثر کا ترجمہ ممکن ہے، بشرطیکہ آپ دونوں زبانوں میں مشاق ہوں۔عینی آپا کے اس ترجمے کی خصوسیت یہ ہے کہ جب وہ اس کے مکالمات میں استعمال کی گئی روز مرہ کی زبان کا ترجمہ کرتی ہیں تو بجنسہ اردو کے وہ الفاظ ڈھونڈھ کر لاتی ہیں جو گھر باہر، گلی محلے میں بولے تو بہت جاتے ہیں لیکن اردو کے ’’ ادبی ناولوں‘‘ میں ان کاشاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
اب ان کے اسلوب کے بارے میں بھی کچھ بات ہو جائے۔ ورجینی وُولف کی “مسز ڈیلو ویے ” کی اشاعت کے بعد ایک روایتی تبصرہ نگار اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ورجینیا وولفؔ نے زبان کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ اپنی شعوری رو کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے وہ ’’لنگڑی زبان‘‘ کی بیساکھی پکڑ کر چلتی ہے۔اردو کے نقاد تو شاید پہلے سے ہی عینی آپا کے وسیع اور عمیق مطالعے سے مرعوب تھے اس لیے ان کے اسلوب کے بارے میں کسی نے کوئی فضول بات نہیں لکھی، بہر حال یہ امر واقعی ہے، کہ وہ ’’لنگڑی زبان‘‘ کا استعمال بخوبی سے کرتی ہیں۔ فقرے بسا اوقت ادھورے چھوڑ دیے جاتے ہیں، اور قاری کو یہ تردد نہیں کرنا پڑتا کیونکہ وہ خالی جگہوں کو بھرنے کا ہنر جانتا ہے۔ حروف استدراک یعنی’’ جیسے، لیکن، البتہ ‘‘کا استعمال بکثرت کرتی ہیں، انسلاک کے الفاظ یعنی ’’ہے‘‘، ’’تھی‘‘، ’’ہو گا ‘‘ سے خانہ پری نہیں کرتیں اور اس طرح تکرار سے دامن بچا جاتی ہیں ۔اس سے ڈرامائی تاثر پیدا ہوتا ہے اور بے ساختگی کا احساس ملتا ہے۔ ان کی عبارت تمثالوں، اساطیری ، تاریخی، لوک قصص اور مذہبی، تہذیبی حوالوں کے باوجود گنجلک نہیں نظر آتی، بلکہ اس میں ایک قسم کی شگفتگی اور تازگی دکھائی پڑتی ہے۔

(عینی آپا کی وفات کے بعد۔۔۔۔ ۲۶ ؍ اگست ۲۰۰۷ عیسوی کے دن تحریر کردہ یہ مضمون ’’آخر آخر‘‘ سے’’ ابتدا ‘‘کی طرف لوٹ کر’’ درمیان ‘‘کی خانہ پری کرتا ہے۔ یہ طریق کار اس لیے ضروری تھا کہ ڈائر ی کے اوراق کسی منطقی سلسلے کے محتاج نہیں ہوتے۔ اُسی دن یہ مضمون ان کی وفات کے بعد ٹورونٹو (کینیڈا ) میں منعقد ہوئی ایک تعزیتی نشست میں پڑھا گیا )

(یہ مضمون ’’ مکالمہ‘‘ میں دوحصوں میں شائع ہوچکاہے)

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

یادیں

وزیر آغا (مرحوم) کے خطوط میرے نام : ڈاکٹرستیہ پال آنند

اکادمی ادبیات کی چھپی ہوئی ضخیم کتاب ’’مزاحمتی ادب ۔اردو‘‘، شاید جناب ماجدؔ سرحدی کے توسط سے مجھ تک 1996
یادیں

یادیں نجیب احمدکی : حامد یزدانی

لہرالہرا کر چلتے ہوئے ہلکے نیلے رنگ کے ویسپا سکوٹر کاہینڈل سنبھالے نجیب احمدذرا سا ترچھا بیٹھے ہوئے تھے۔میں ان