خاکہ

میرے بابا : سیدہ آمنہ ریاض

جہاں مشہور آدمی کی اولاد ہونا مشکل ہے وہاں گھر کا چھوٹا فرد ہونا اس سے بھی مشکل ہے۔معلوم نہیں دونوں صورتوں میں انصاف کر پاتی ہوں کہ نہیں۔خیر میں سمجھتی ہوں کہ مجھے والدصاحب کی اولاد میں سے دو اعزاز حاصل ہیں۔ایک تو براہ راست شاگرد ہونے کا اعزاز۔دوسرا اردو کو بطور مضمون چننے کا اعزاز۔کہ ایم۔اے اردو کر رکھا ہے۔
براہ راست شاگرد ہونے کو میں نے بہت انجوائے کیا۔ہوا یوں کہ ریٹائر منٹ کے بعد والد صاحب نے کچھ عرصہ اس سکول میں پڑھایا جہاں میں پڑھتی تھی۔وہ اسکول کو ایجوکیشن تھا۔تو جیسے ہی والد صاحب کا پیریڈ شروع ہوتا تو سارے لڑکے ان سے ہاتھ ملاتے اور لڑکیوں میں،میں واحد تھی جو ہاتھ ملاتی تھی۔شروع میں کسی کو سوائے انتظامیہ کے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں ریاض صاحب کی بیٹی ہوں۔تو خاصی دلچسپ صورتحال پیدہ ہو گئی۔لیکن یہ صورتحال محض دو یا تین دن رہی۔پھر سب کو معلوم ہو گیا کہ۔اصل ماجرا کیا ہے؟🤭۔
والد صاحب کی اردو کے لحاظ سے شہرت تھی لیکن وہ ڈانٹتے خالصتاً ٹھیٹھ پنجابی میں تھے۔جب وہ پنجابی میں دھواں دار ڈانٹ چکتے تو اگلے ہی لمحے میں کچھ گنگنانے لگتے تھے۔جس پر ہم فوراً ہنسنے لگتے اور ڈانٹ کا سارا اثر زائل ہو جاتا۔😆البتہ یہ سمجھ آئی کہ اردو زبان ایسے جزبات کے اظہار سے محروم ہے پنجابی جن سے مالا مال ہے۔😁
بچپن سے ہی گھر کا ماحول نہایت علمی و ادبی تھا۔جب بھی گھر میں لائیٹ جاتی تو والد صاحب کلام اقبال کا مقابلہ کرواتے۔ہم بہت شوق سے پڑھتے۔لیکن انعام نہیں ملتا تھا۔خیر اس وقت انعام کا کچھ لالچ بھی نہیں تھا۔
ان کے شاگرد گھر بھی آتے تھے پڑھنے کے لییے۔تو اندر ڈرائینگ روم سے پڑھنے کی کم اور ہنسنے کی زیادہ آوازیں آتی تھیں۔جو بھی آئیس کریم یا گول گپوں والا گزرتا تو ان شاگردان رشید کی تواضع کا بھی فوری انتظام کیا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ جانے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔بلکہ اکثر کہتے سر آج گھر والے کہییں گئے ہوئے ہیں رات یہییں رہنے کی اجازت دیں۔😆
مشاعروں کا سلسلہ بھی بچپن سے ہی دیکھا۔ایک بات ہمیشہ نوٹ کی کہ جب پلاو اور زردے کی طشتریاں اندر خاطر تواضع کی غرض سے بھجوائی جاتیں تو واہ واہ سبحان اللہ کی آوازیں اس قدر زور سے آنے لگتیں کہ فضا مئوتر ہو جاتی۔🙂
والد صاحب کی طبیعت میں مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ایک مرتبہ کا دلچسپ واقعہ یاد ہے کہ ایک مرحوم شاعر جن کا نام سلیم تھا ان کی آواز بہت خوبصورت تھی۔وہ رات کو آئے تو ساتھ ہی بادل بھی چلے آئے۔خاصی تیز بارش شروع ہو گئی۔ادھر سلیم صاحب اللہ ان کو غریق رحمت کرے آمین انہوں نے راگ چھیڑ دیا۔راگ کا چھڑنا تھا کہ بارش نے بھی زور پکڑ لیا۔ان نہ بارش رکتی تھی اور نہ سلیم صاحب کا راگ اور ہاں۔۔۔۔۔ نہ ہم سو ہی سکتے تھے۔😆۔یہ سلسلہ تقریباً ساری رات چلتا رہا۔محلے والوں نے بھی خوب انجوائے کیا ہو گا تاہم ہمیں کسی نے اس بارے میں بتایا نہیں🤔۔
جیسا کہ شروع میں عرض کر چکی کہ مشہور شخص کی اولاد ہونا بے حد مشکل ہے۔جہاں یہ اعزاز ہے وہاں نبھانا خاصا مشکل۔مجھے البتہ کافی مشکل کا سامنا رہا۔چوں کہ بچپن سے شرارتی تھی تو ہمیشہ شکایت لگ جاتی تھی۔کالج میں بھی ہمیشہ شرافت کا لبادہ اوڑھے رکھا البتہ جہاں موقع ملتا وہاں شرارت کرنے سے باز نہیں آتی تھی۔☺️
والد صاحب دستر خوان وسیع ہونے کے معاملے میں بھی خاصے وسیع القلب واقع ہوئے۔مجھے اپنے ہوش میں یاد نہیں پڑتا کہ کوئی بھی شخص کچھ کھائے پیئے گھر سے چلا گیا ہو۔بلکہ الحمدللہ ہاتھ اتنا کھلا تھا اور ہے کہ ہمیشہ سودا ضرورت سے زیادہ ہی لے آتے۔والدہ مرحومہ اگر کہتیں کہ تسی زیادہ لے آئے او۔تو وہ جواب دیا کرتے کوئی گل نئی ماسی لے جائے گی۔یعنی جو عورت گھر میں کام کرتی تھی اگر زیادہ ہے تو اس کو دے دیں۔
اسی طرح جو بھی ملنے آتا اس سے ہمیشہ ملاقات کرتے چاہے آرام فرما رہے ہوں۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ آرام کر رہے تھے کہ ایک صاحب تشریف لائے۔میں نے کہہ دیا کہ ابو تو سو رہے ہیں۔جس پر وہ ملے بغیر واپس چلے گئے۔البتہ جب والد صاحب اٹھے اور ان کو پتہ چلا تو اس قدر برہم ہوئے کہ خدا کی پناہ۔آئندہ کے لئیے میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
ابا جی خبریں بڑی باقاعدگی سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔جیسے ہی خبریں شروع ہوتی ہیں غنودگی کا ایسا غلبہ طاری ہوتا ہے کہ فوری سو جاتے ہیں۔میں یہ موقع دیکھتے ہی ٹی وی بند کر دیتی تھی۔مگر جیسے ہی ٹی وی بند ہوتا ویسے ہی والد صاحب کی آنکھ کھل جاتی اور ساتھ ہی ایک فلک گیر آواز آتی۔۔۔۔اے ٹی وی کنے بند کیتا اے؟چنگا پلا میں خبراں سندا پیا سی۔😆اور حیرت انگیز طور پر آپ ان سے پوچھ لیں کہ کیا خبر چل رہی تھی تو وہ آپ کو بالکل صحیح جواب دیں گے۔🤭۔البتہ اب ہم ٹی وی بند نہیں کرتے۔اسی طرح ان کی عینک اور کتابیں وقت کی پاپندی سے خود ہی گم اور پھر خود ہی مل جاتی ہیں۔عینک ہمیشہ کی طرح والد صاحب کی جیب سے برآمد ہو جاتی ہے اور کتابیں کمرے میں ہی کہییں سے۔
پچھلے دنوں ان کو نسیان کا مرض لاحق ہو گیا ۔ہوتا یہ تھا کہ کسی بھی خاتون یا حضرت کی شکل تو یاد آتی لیکن نام بھول جاتا۔اب والد صاحب کو بے چینی لگ جاتی۔جب تک نام پتہ نہیں لگتا تھا طبیعت بحال نہیں ہوتی تھی۔کئی بار یوں ہوا کہ آدھی رات کو مجھے اٹھایا اور پوچھنے لگے بھئی فلاں بندہ اس کا نام کیا ہے؟اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اسی وقت بتا دیتی۔اگرمجھےمعلوم نہ ہوتا پھر ان کو ساری رات نیند نہیں آتی تھی۔اس کے حل کے لئیے پھر ایک باقاعدہ رجسٹر رکھ لیا۔جیسے ہی نام یاد آتا ،اس میں درج کر لیا جاتا اور پھر بھولتا تو فوراً رجسٹر سے رجوع کرتے۔رجسٹر میں بیسیوں نام درج ہیں۔البتہ اب کافی حد تک اس مرض پر قابو پا چکے ہیں۔
ہر ماہ جب بجلی کا بل آتا ہے تو ہم زور دار زلزلہ آتا محسوس کرتے ہیں۔زمین آسمان ہلتے محسوس ہوتے ہیں اور ہم لائن حاضر کر لئیے جاتے ہیں۔پھر ان کو لاکھ یقین دلا دو۔وہ یہی کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ میں ہی بجلی خرچ کرتی ہوں😜۔لیکن عادت کے مطابق فواً کچھ گنگنانے لگتے ہیں۔☺️
ابو کی لطیفے سنانے کی عادت بہت مشہور ہے۔بات بات پر لطیفے سنانا اور محفل کو کشت زعفران بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
سادگی بھی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔البتہ امریکہ میں مقیم بیٹی کے پاس جب گئے تو ضد کر کر کے پتلون شرٹ پہنننے کی فرمائش کر دی۔ان کی خواہش کو فوراً مان لیا گیا۔جب یہ لباس زیب تن کیا تو بہت ہی کیوٹ لگے۔😎😘
شاگردوں سے گھر کے کام کروانا والد صاحب ہی کا کام تھا۔اور میں حیران ہوں کہ عین ضرورت پڑنے پر ان کا کوئی شاگرد رحمت کے فرشتے کی طرح نازل ہوتا اور کوئی نہ کوئی کام کر جاتا۔ایک مرتبہ ایک شاگرد ڈاکٹر بن کر نئی گاڑی میں سوٹڈ بوٹڈ ہاتھ میں مٹھائی پکڑے خوشی خوشی آیا۔تو والد صاحب بے جیسے ہی اس کو دیکھا ویسے ہی کہا۔برخوردار ذرا دہی لانا۔اور وہ برخوردار فوراً دہی لینے کی طرف گامزن ہوگیا۔
والد صاحب کے ملنے والوں کا تانتا بندھا ہی رہتا ہے۔اگر کچھ دن تک کوئی ملنے نہ آئے تو اداس ہو جاتے ہیں۔پھر فون کر کر کے دوستوں کو بلاتے ہیں۔
والد صاحب موسیقی کے بھی رسیا ہیں۔چونکہ خود سیالکوٹ کے ہیں۔اسی مناسبت سے۔۔۔۔۔اے منڈیا سیالکوٹیا۔۔۔۔والا گانا بے حد پسند ہے اور بار بار یہ گانا سن سن کر اپنے آپ کو سیالکوٹی منڈا ہی تصور کرتے ہیں۔
آخر میں میری اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ یہ سیالکوٹی منڈا ہمیشہ جوانیاں مانے اور ہمیں یونہی پنجابی میں ڈانٹیں پڑتی رہییں،مشاعرے چلتے رہییں،محفلیں سجتی رہییں اور اللہ پاک والد محترم کا سایہ ہمارے سروں پر یونہی قائم و دائم رکھے۔آمین

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خاکہ

رحمان حفیظ ۔۔۔ بادشاہ گر پوٹهوہاری باوا : سعید سادھو

جب سے سوشل میڈیا آیا ہے شاعر کی اہمیت تبدیل ہو گئی ہے جانے یہ پہلے سے بڑهی ہے یا
خاکہ

صلاح الدین درویش کاہتھوڑا اور درانتی : سعید سادھو

بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک خاکہ نگار امیر یا غریب ہو سکتا ہے اگر اس کے گرد مصنوعی، ملمع کاری