خاکہ

شہر میں اک چراغ تھا ،نہ رہا : مجاہد حسین

انسان کبھی ماضی میں لوٹ کر نہیں جا سکتا ۔ماضی کے دریچوں سے جھانک کر یاد وںکے چند خوبصورت لمحات سمیٹ لینا میرا روز کا معمول ہے۔ میں نے تعلیم کے گیارہویں برس میں قدم رکھا تو اکیسویں صدی کا آغاز ہو چکا تھا۔ گورنمنٹ کالج عارف والا کے باغیچے میں کھلے پھولوںکی خوشبو مہمان صدی کا استقبال کر رہی تھی۔ یہ ستمبر کا مہینا تھا ، تاریخ یاد نہیں البتہ چند واقعات یاد ہیں۔ ان کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ،کالج میں پہلے دن ہمارا استقبال فولنگ (fooling)سے نہیں کیا گیا ۔نئے آنے والے طلبا ء کے لیے ایک تقریب منعقد کی گئی ۔سٹیج سیکرٹری کے فرائض جناب پروفیسر صدیق قمر صاحب نے انجام دیے ہم سب میٹرک پاس ،کالج کے تمام ا سا تذہ کا تعارف اور چند کا پیغام سن کر اپنے گھروں میں لوٹ آئے ،پھر چند دن بعد کلاسز شروع ہوئیں ۔ ٹائم ٹیبل میں اردو کے پیریڈ کے لیے پروفیسر سید نجف علی شاہ صاحب کا نام لکھا ہوا تھا لیکن پتا چلا کہ وہ رخصت پر ہیں۔ہمیںپروفیسر سید سجاد قادری اردو پڑھانے لگے۔ پہلے دن استاد محترم نے اپنا تعارف کرایا پھرطلبا کو اپنا اپنا تعارف کروانے کا کہا گیا۔ میری باری آئی تو استاد محترم نے کہا: تم نام کے ہی مجاہد ہو یا کام کے بھی؟ کیا تم نے کبھی جہاد کیا ہے؟ مجھ سے مناسب جواب نہ بن پڑا۔ خیربات آگے چل پڑی۔
استادِ محترم کا نہایت شگفتہ انداز اور لہجہ دھیما تھا، چہرے پر متانت اور سنجیدگی سجی رہتی۔ گوری رنگت اور درمیانہ قد۔ وہ شانِ بے نیازی سے کالج میں داخل ہوتے ، اپنی موٹر سائیکل پارکنگ میں روکتے، وقار اور تمکنت سے چلتے ہوئے ہماری کلاس کا رخ کرتے۔ ان کا وہ انداز مجھے آج بھی یاد ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ وہ آس پاس موجود ہیں اور ا بھی کسی طرف سے آنکلیں گے۔ طلبا کو ان کا رویہ بہت اچھا لگتا۔ اکثر ہم خالی پیریڈ میں اساتذہ کی گریڈنگ کرتے تھے ۔ کس استاد کا انداز اچھا ہے۔ کون قنوطی ہے وغیرہ۔ سید صاحب کی باری آتی تو سب خاموش ہو جاتے۔
وہ میرے استادِعالی جناب ہیں
وہ کڑے دن میں برستا سحاب ہیں
وہ چراغِ شب ،درخشاں،شگفتہ رو
وہ میرے دل میں مثالِ گلاب ہیں
میں نے پروفیسر صدیق قمر صاحب سے سنا ہے کہ استادِ محترم سید سجاد قادری صاحب کے والدِ گرامی سید سکندر علی شاہ ایک عوامی شخصیت تھے۔ آپ دوریش صفت تھے ہمہ وقت عوام کی خدمت پر کمر بستہ رہتے تھے۔ قبولہ شریف (جو استادِگرامی کا آبائی گائوں تھا) میں ہسپتال کے لیے دو ایکٹر ذاتی اراضی وقف کر دی ۔اگر آپ ایسا نہ کرتے تو یقیناً وہ گرانٹ کسی اور شہر یا قصبے کو دے دی جاتی۔
آپ کے والدِ گرامی نہایت سادہ اور درویشانہ زندگی کے قائل تھے ،کیا شخصیت تھی ، سر پر ٹوپی ،پائوں میں ہوائی چپل،کرتا اور تہمند پہنتے۔تہمند کے پلومیں، شاہ صاحب کے پیسے ہوتے تھے۔ جہاںکہیں غریب غربا نظر آجاتے یا کوئی مطالبہ کرتا تو آپ انھیں پیسے دے دیتے۔
سید سجاد قادری ان کے صاحب زادے تھے۔ آپ بھی طبعاً سخی اور فیاض تھے۔ ہر کہ ومہ سے تعلق رکھتے تھے۔ لوگوں کے لیے فیاضی عام تھی۔ آپ اپنے علاقے میں پروفیسر کی حیثیت سے کم اور زمیندار کی حیثیت سے زیادہ جانے جاتے تھے۔
وہ قبولہ شریف کے نوجوانوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ کو اس بات کا بہت شوق تھا کہ قبولہ کے نوجوان بیرون شہر اچھے کالجز اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے والدین اور اساتذہ کا نام روشن کریں۔
ان کے وہ طلبا ء جو یونیورسٹیوں میں بیرون شہر تعلیم پذیر تھے جب گھر آتے تو شاہ صاحب ایک ایک سے ملتے ،ان کے تعلیمی احوال اور مسائل کا پوچھتے ،ممکن حد تک مالی معاونت بھی کرتے۔ اس کے علاوہ مولانا مودودیؒ کی اسلامی کتب انھیں تحائف میں دیتے اور بعد میں اس کا Feed Back))اظہار رائے بھی لیتے تھے۔ آپ ایک خاصے خوشحال زمیندار تھے اور انتہائی فیاض آدمی تھے۔
آپ نے طلبا ء کی فلاح کے لیے بہت سے کام کیے کالج میں اولڈ بک سوسائٹی کا قیام ان میں سے ایک ہے۔
اس کے علاوہ طلبا کے لیے درسی کتب کی گائیڈ عرفانِ اردو اور عرفانِ اسلامیات کے نام سے ترتیب دیں۔
آپ نے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا ۔آپ کا ایم فِل کا مقالہ معروف فلم ڈائریکٹر ریاض شاہد کی علمی و ادبی خدمات پر تھا۔
کالج میں اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے۔ سٹاف روم میں کسی موضوع پر بحث ہوتی تو سب کی آراء غور سے سننے کی کوشش کرتے کہ ان سے کوئی ناراض نہ ہو ۔مگر جب وہ خود ناراض ہوتے تو ان کو منانا مشکل ہو جاتا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریاض صاحب کالج کے پرنسپل تھے، سید صاحب کچھ ناگزیر حالات کی وجہ سے ۱۵ دن مسلسل کالج سے غیر حاضر رہے اور چھٹی یا غیر حاضری کی کوئی اطلاع بھی نہ دی۔ ان دنوں ریاض صاحب( سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج عارف والا) شاہ صاحب کی کلاسز پڑھاتے رہے۔ جب شاہ صاحب کالج واپس آئے تو پروفیسر ریاض صاحب سے ملے اور کہنے لگے۔ ریاض صاحب آپ اتنے دنوں سے کہاں غائب تھے۔۔۔۔۔؟
وضع داری، ہمدری، اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا اُس وقت، لوگوںمیں عام تھا آج کل کے دور میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ استاد گرامی کو غریقِ رحمت کرے(آمین ) ایسے لوگ دنیا میں کم ہی رہ گئے ہیں۔
؎اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخِ زیبا لے کر

 

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. یوسف خالد

    ستمبر 20, 2020

    عمدہ یادیں اور استاد کے لیے عمدہ تحسینی کلمات

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خاکہ

رحمان حفیظ ۔۔۔ بادشاہ گر پوٹهوہاری باوا : سعید سادھو

جب سے سوشل میڈیا آیا ہے شاعر کی اہمیت تبدیل ہو گئی ہے جانے یہ پہلے سے بڑهی ہے یا
خاکہ

صلاح الدین درویش کاہتھوڑا اور درانتی : سعید سادھو

بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک خاکہ نگار امیر یا غریب ہو سکتا ہے اگر اس کے گرد مصنوعی، ملمع کاری