ہوا غروب جو سورج تو چاند نکلا ہے
زوال ایسا ہے تو پھر کمال کیا ہو گا
اے زندگی مجھے سارے جواب آتے ہیں
ہوں منتظر تیرا اگلا سوال کیا ہو گا
ظہور الاسلام جاوید ہمہ صفت موصوف ہیں۔ یہ تنہا بھی ایک کاروانِ فکر و عمل اور ایک عہد ساز شخصیت ہیں آپ نہ صرف بلند پایہ قلمکار ہیں بلکہ شعر و ادب اور ادیب دوستی کا بھی روشن استعارہ ہیں، خدمت اور متبت رویوں کے عکاس اور عکس بھی ہیں۔ فروغ علم و ادب ان کی پہچان ہے۔ ہمیشہ میدانِ خدمت کی اگلی صفوں میں دکھائی دیتے ہیں. ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں جبکہ علمی ادبی سرگرمیوں کے مرکز و محور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دبستان انسانیت بھی ہیں،بہت سے کامیاب عالمی مشا عروں کا سہرا بھی انہی کے سر جاتاہے، مشاعروں کے نظامت کار اور خو بصورت اشعار کے خالق ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی مشفق ماہر تعلیمات دانشور اور خوبصورت انسان بھی ہیں.
ظہور الاسلام جاوید صاحب ایک طویل مدت سے متحدہ عرب امارات میں مقیم رہے ہیں، اما رات میں اردو، پنجابی اور پشتو زبان کے مشا عروں کی میز بانی بھی کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال سے عالمی اردو مشاعرہ ابوظہبی میں منعقد کرنے کا کار ہائے نمایاں بھی انہی کا خاصہ ہے. امثال بھی اسی عالمی مشا عرہ کے انعقادی و انتظامی امور کی بجا آوری کے سلسلہ میں وہ پچھلے ایک ماہ سے ابوظہبی میں مو جود ہیں مگر شومئی قسمت کہ مشاعرہ کے تمام انتظامات مکمل ہونے کے بعد اچانک عالمی سطح پر پھیلنے والے ایک مہلک جرثومہ کی مذید تباہ کاریوں کےخدشہ کے پیش نظر تمام گروہی اجتماعات کی بندش کے سبب مشاعرہ کا انعقاد بھی کھٹائی میں پڑ گیا چس کے باعث ان کی وقتی فراغت کے لمحوں کو نعمت غیر مترکبہ جانتے ہوئے ان کے پرستاروں نے ان کی خدمات کو سراہنے کےلیے ایک اعزازی ظہرانہ کا اہتمام کیا. جس میں امارات بھر سے ان کے چاہنے والوں نے بھر پور شرکت کی. اس ضمن میں جمعہ 13 مارچ بعد از نمازِ جمعہ مصفح پاک نعمت کدہ ہوٹل میں ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی. پرتکلف کھانے کے فورا بعد قران کریم کی تلاوت اور نعت رسول مقبول ﷺ سے مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز ہوا .
مشاعرے میں موجود معروف شاعر اختر ملک کے والد مرحوم اور آصف رشید اسجد کے والد مرحوم کی ارواح کے ایصالِ ثواب کےلیے دعائے مغفرت کی گئی.
مشاعرہ کی صدارت جناب ظہور الاسلام جاوید صاحب نے کی ۔ نوجوان شاعر ندیم احمد شہزاد کے والد ِ محترم جناب محمد حسین ظفر صاحب جو ان دنوں امارت میں موجود ہیں مہمانِ خصوصی تھے. مشاعرہ کی نظامت کے فرائض مسرت عباس ندرالوی نے انجام دیئے.
بقول شخصے کرکٹ کا اوپنگ بلے باز اور مشاعرہ کا پہلا شاعر کھیل اور مشاعرہ کی سمت کا تعین کر دیتا ہے. مسرت عباس نے نظامت کی ایک گمشدہ روایت کو زندہ کرتے ہوئے اپنےکلام سے مشاعرہ کی ابتدا کی اور اس آغاز کو بلندی کی طرف گامزن کر دیا. جس کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک شاعر نے مختصر مگر نہایت ہی خوبصورت کلام پیش کیا اور یوں محفل کا گراف شروع سے لے کر آخر تک بلند ہوتا چلا گیا. ہر شاعر نےڈھیروں داد سمیٹی.
میں اپنے عہد میں عاصم ابھی پہنچا نہیں
کئی پچھلے زمانےراستہ روکے ہوئے ہیں
اس خوبصورت شعر سمیت متعدد خو بصورت اشعار کے خالق محترم ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی صاحب نے اپنے احسا سات و افکار کو شاعری کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا انہوں نے ظہور الاسلام جاوید صاحب کے ادبی سفر اور خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئےانہیں زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا-
ہر عہد ایک نئے عہد کی تلاش میں ہے
وہ آئے گا تو زمانے بدل گئے ہوں گے
صدرِ محفل جناب ظہور الاسلام جاوید صاحب نے اپنے کلام سے پہلے تمام شرکا اور منتظمین کا خوبصورت اور یادگار شعری نشست کے انعقاد پر شکریہ ادا کیا. ان کا کہنا تھا کہ آج تمام شعرا کی شاعری سن کر مجھے اس بات پر فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ادب اور ادیب کی جس خدمت کا بیڑا امارات میں میں نے اٹھایا تھا وہ رائیگاں نہیں گیا. ان کا مذید کہنا تھا کہ جس معیار کی شاعری امارات میں ہو رہی ہے ہمیں مشا عروں کیلیے بیرونِ ممالک سے آنے والے شعراء کی اب کمی محسوس نہیں ہو گی. ان کا کہنا تھا کہ حالات سازگار ہوتے ہی ان شاء اللہ وہ اپنا عالمی مشاعرہ ضرور منعقد کریں گے.
مشاعرہ میں کاشف کامران ، افشاں جبین ، عاطف رئیس ، ضمیر افسر ، مسعود نقوی ، مادھو نور ،نصر نعیم ، ابرار عمر ، عبدالسلام عازم ، حسین شہزاد ، عائشہ شیخ عاشی ، شہباز شمسی، رضا احمد رضا ، ندیم احمد شہزاد ، احیاءلاسلام بھوجپوری ، جاوید صدیقی ، سید آصف سروش ، فرزاد علی زیرک ، اختر ملک اور فرہاد جبرئیل نےاپنے کلام سے حاضرین کے دل موہ لئے.
مشاعرہ کے اختتام پر سید سروش آصف نے تمام شعرا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور تمام شرکاء نے ظہور الاسلام جاوید صاحب کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور منتظمین کو ایسی یادگاراور خوبصورت محفل کے انعقاد پر مبارکباد دی-
شعرا کے کچھ اشعار حاظرِ خدمت ہیں-
1- مسرت عباس ندرالوی
جشن برپا ہے آشیانے میں
شاخ پھر سے ہری نکل آئی
اُس نے پوچھا مزاج کیسے ہیں
اور میری ہنسی نکل آئی
2- کاشف کامران
وہ جس سے کرتا ہے تُو میری شکایت
وہ تیرا ہی میرا بھی خدا ہے
3- افشاں جبین
وہ بھی لفظوں سے وار کرتے ہیں
جن کو اپنا شمار کرتے ہیں
4- عاطف رئیس
میرا خیال یہی تھا کہ زندگی مجھ کو
اگر ملی تو ترے نام سے پکارے گی
5- ضمیر افسر
رونمائی کتابِ رخ کی تھی
تذکرہ حادثات کا بھی ہے
6- سید مسعود نقوی
سانس بھی لوں تو شور ہوتا ہے
کتنی خاموش ہو گئی دنیا
7- مادھو نور
ملے تو مجھ کو مکمل ملے مرے دنیا
وگرنہ میرے لیے اور کائینات بنے
8 – ناظر وحید
رنگ درکار تھے ہم کو تیری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں
9- نصر نعیم
ہے انتظار تمھیں کس ہوا کے چلنے کا
اڑو کہ باز ہو تم گردِ ریگزار نہیں
10- ابرار عمر
میں آسمان کی سیڑھی پہ چڑھ کے لایا تھا
یہ چاند سارے ستاروں سے لڑ کے لایا تھا
11- عبدالسلام عازم
سنا ہے درد کی بانہوں میں آ پڑا ہے وہ
جو زندگی میں کبھی درد آشنا نہ ہوا
12- حسین شاہ زاد
نہ پوچھ یار ترے رخ کا داغ کیسا تھا
بہت سے دل بھی ترے تِل کے ساتھ ساتھ گئے
13 – عائشہ شیخ عاشی
خود پر یقین آئے گا اُس بے یقین کو
جس نے سمجھ لیا ہے محبت کے دین کو
14- شہباز شمسی
نہ چاہ میرے لبوں سے کوئی بیان میرا
کہ میری آنکھ میں بیٹھا ہے ترجمان میرا
15 – رضا احمد رضا
ہم سر زمینِ عشق کے خانہ بدوش ہیں
ہم جانتے ہیں لامکاں مقام اپنا ہے
16 – ندیم احمد شہزاد
اپنی ہمدردی کے سِکے پاس رکھ
آدمی ہوں میں کوئی کاسہ نہیں
17 – احیاء الاسلام بھوجپوری
آپ نے جس طرح حفاظت کی
غیر محفوظ ہو گئی دنیا
18 – جاوید صدیقی
کیا بتاؤں کہ کیا ملا ہے مجھے
تُو ملا نہ خدا ملا ہے مجھے
19 – سید سروش آصف
یہ الگ بات کہ تکلیف بڑھا دیتا ہے
آئینہ مجھ کو مگر مجھ سے ملا دیتا ہے
20 – فرزاد علی زیرک
کئی لبوں کی عیادت کو ملتوی کر کے
وہ ہنس پڑا تو دلاسوں کے رنگ اڑنے لگے
21 – اختر ملک
میں ہجر اور وصل کے دو مرحلوں میں ہوں
بیٹھا ہے میرے پاس وہ جانے کے بعد بھی
22- فرہاد جبرئیل
جھگڑا یوں طے پایا ہے اب حشر تلک
ساتھ رہیں گے پیاس اور پانی آنکھوں میں
23 – ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی
لا حاصل کو حاصل سب ہو سکتے ہیں
سب کچھ کھو کر زائل سب ہو سکتے ہیں
سب نے دھوئے ہوئے ہیں اپنے ہاتھ یہاں
اس بستی میں قاتل سب ہو سکتے ہیں
24 – ظہورالاسلام جاوید
کوئی لمحہ تکبر کا کبھی طاری نہ ہو جائے
ڈرو اُس وقت سے لمحہ وہی بھاری نہ ہو جائے
میری زنجیرِ وحشت اس لیے کھولی نہیں اُس نے
کہیں اِس سے جنوں کی ناز برداری نہ ہو جائے