تنقید

ہمعصرتنقیدی منظرنامے کا جدیدنقاد ۔۔۔ شمس الحق فاروقی : ڈاکٹڑعبدالعزیزملک

شمس الرحمان فاروقی اردو ادب میں ہمہ جہت شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔اُنھوں نے اپنی تنقیدی بصیرت سے نہ صرف نئے شعری نکات کا اضافہ کیا ہے بلکہ اردو تنقید کو نئی جہات سے بھی روشناس کرایا ہے۔ ان کی شخصیت ،افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر،مترجم ،مدیر ،ماہرِ عروض ،خطیب اور دانشور سے عبارت ہے ،لیکن اُنھوں نے اردو ادب میں نقاد کے طور پر شہرت حاصل کی۔اُنھوں نے انتھک محنت اور مطالعے سے اردو تنقید کو اس کا اصل منصب عطا کیا۔ان کی تحریریں اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ تنقید قارئین کو فن اور غیر فن سے آگاہ کرتی ہے۔ایک طرف اَدب فن کا مرکز ہے تو دوسری جانب وہ زبان کے ذریعے اظہار کرتا ہے۔شمس الرحمان فاروقی نے ادب اور غیر ادب،فن اور غیر فن کے مابین امتیاز قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔اِس حوالے سے ان کا مضمون’’ کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟‘‘اہمیت کا حامل ہے۔اس مضمون میں کچھ اس طرح کے مباحث پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔جس طرح زبان خود کو مختلف صورتوں میں ظاہر کرتی ہے ،اسی طرح ادب بھی اپنا اظہار مختلف صورتوں میں کرتا ہے جنھیں دو بنیادوں زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک شاعری اوردوسرا نثر۔ادب کی شناخت کے بعدجو دوسرا مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہ یہ کہ ادب پارے کو کس خانے میں رکھا جائے۔یعنی شاعری اور نثر میں فرق کیسے قائم کیا جائے۔ فرض کیا اگر شاعری اور نثر میں موزونیت اور غیر موزونیت کا فرق قائم کر لیا جائے تو کیا ہر موزوں تحریر کو شاعری کہا جا سکتا ہے؟اس طرح کے کئی مباحث ہیں جن پر شمس الرحمان فاروقی نے اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے۔اُنھوں نے اپنی تحریروں میں ایسے سوالات اٹھانے کی کوشش کی ہے جس سے ادب کو پرکھنے اور سمجھنے میں مدد مل سکے۔وہ وسیع تنقیدی اور تخلیقی سر مایے کے حامل ہیں ۔ان کی تنقیدی کتب میں ’’ لفظ و معنی‘‘،’’اِثبات و نفی‘‘،’’شعر ،غیر شعراور نثر‘‘،’’ افسانے کی حمایت میں ‘‘،’’ تنقیدی اَفکار‘‘،’’تفہیمِ غالب‘‘،’’شعرِ شور انگیز‘‘،’’اُردو کا ابتدائی زمانہ‘‘،’’تعبیر کی شرح‘‘،’’جدیدیت،کل اور آج‘‘،’’صورت ومعنی سخن‘‘اور’’تخلیق،تنقید اور تصورات‘‘وغیرہ نمایاں ہیں۔غالب اور میر کی تفہیم سے متعلق ان کی کا وشیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ ان کے تنقیدی کام کو پیش نظر رکھتے ہوئے شمیم حنفی نے کہا ہے کہ ’’ہم تنقید کے اس عہد کو فاروقی کا عہد بھی کہہ سکتے ہیں ۔‘‘
شمس الرحمان فاروقی نے اُردو تنقید کو نظریاتی بنانے اور تھیوری کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ اُنھیں نظریہ ساز نقاد بھی کہا جا تا ہے۔نظریہ ساز نقاد کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ پہلے ایک نظریے کے خدو خال واضح کرتا ہے اور پھر اس نظریے کی روشنی میں فن پاروں کی اِفہام و تفہیم کے بعد کسی فیصلے تک پہنچتا ہے۔بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذاتی پسند یا نا پسند کے برعکس ،خود کو اخلاقی اَقدار کا پا بند خیال کرتا ہے۔اُردو تنقید میں ہمیں یہ رویہ حالی کی ’’ مقدمہ شعرو شاعری‘‘ اور شبلی کی ’’ موانہ انیس و دبیر‘‘ میں دکھائی دیتا ہے ۔ وہ پہلے اپنے نظریے کی وضاحت کرتے ہیں اور پھر اس کی روشنی میں فن پاروں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ شمس الرحمان فاروقی کی نظریہ سازی کی پہلی کتاب ’’ شعر، غیر شعراور نثر‘‘ہے۔اسی عنوان سے اس کتاب میں ان کا ایک مضمون بھی موجود ہے جو ڈیڑھ سو سے زیادہ صفحات پر مبنی ہے ۔اس مضمون میں فاروقی صاحب کا وہ نظریہ سامنے آیا ہے جو نظم و نثرکی تعریف ،اس کے مواد اوراس کے موضوعات کا اقداری تعین کرتا ہے۔
شروع میں شمس الرحمان فاروقی کے تنقیدی افکار میں نئی تنقید کے اثرات نمایاں تھے ۔ خاص طور پر آئی اے رچرڈز، ولیم ایمپسن اورایف آر لیوس کے افکار سے اُنھوں نے بھر پور استفادہ کیا۔جیسا کہ نئی تنقید میں Close Reading پر خصوصی توجہ صرف کی جاتی ہے۔فاروقی نے بھی اِس سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔مذکورہ ناقدین کے افکار کی روشنی میں اُنھوں نے ہئیت پسندی کوبھی اپنا شعار بنایا لیکن جیسے جیسے ان کا مطالعہ وسیع ہوتا گیا اور تنقید کے دیگر دبستانوں سے ان کی شناسائی بڑھتی چلی گئی انھوں نے نئی تنقید کے ہئیتی دبستان سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ ان کے تنقیدی افکار میں اس وقت نمایاں تبدیلی رونما ہوئی جب انھوں نے ۱۹۸۰ء میں میرؔ پر کام کا آغاز کیا۔ میر پر کام کرتے ہوئے وہ مشرقی شعریات کی جانب ملتفت ہوئے ۔ میر پر کام کرنے کے دوران میں اُنھوں نے کلاسیکی ہندوستان اور عربی و فارسی شعریات کو باریک بینی سے پڑھا ۔مطالعے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مشرقی شعریات کی بنیادیں بہت گہری ہیں۔وہ تو اس بات کا بھی برملا اظہار کر چکے ہیں وہ نکات جو فرانسیسی اور یورپی مفکرین نے پیش کیے ہیں ان کے بارے میں مشرق پہلے ہی بحث کر چکا تھا اور اب مغربی نقاد اس کو دوہرا رہے ہیں۔ان کی تنقیدی بصیرت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے محبوب الرحمان لکھتے ہیں :
’’فاروقی صاحب کی تنقیدی بصیرت اور کارنامے کو اگر ایک جملہ میں پیش کرنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اردو کے پہلے اور اکیلے نقاد ہیںجنھوں نے ہمیں احساسِ کمتری سے نکال کر اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر کرنا سکھایا ہے۔انھوں نے نہ صرف انگریزی ادب سے آنکھیں چار کیں بلکہ شعریات کے معاملے میں مغربی نظریات کو مشرق سے مختلف اور بڑی حد تک محدود قرار دیا۔‘‘(۱)
شمس الرحمان فاروقی مشرقی شعریات سے جتنی واقفیت رکھتے ہیں اتنی ہی وہ مغربی شعریات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ان کی دیگر ناقدین کے برعکس ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے کلاسیکی ورثے کے امین ہیں ۔انگریزی ادب اور جدید تھیوریز کا مطالعہ کچھ اور ناقدین نے بھی کیا لیکن ان کا عربی اور فارسی سے اتنا شغف پیدا نہ ہو سکا جتنا کہ فاروقی صاحب کا ہے۔اُردو کے کلاسیکی سر مائے سے محبت میں اُنھوں نے عروض ، بیان و بدیع اور شعری آہنگ سے خود کو ہم آہنگ کیا۔شمس الرحمان فاروقی کی تنقید کا نمایاں پہلو ان کی میر شناسی ہے جو ’’شعرِ شور انگیز‘‘ کی صورت میں منظرِ عام پر آئی ۔اِس میں اُنھوں نے میر کے چھ دواوین کا انتخاب اورشرح و تفسیر کی ہے اوراس کتاب کو چار جلدوں میں تقسیم کیا ہے۔
شمس الرحمان فاروقی نے کلامِ میر کی شرح روایتی انداز سے ہٹ کر کی ہے۔اِس میں مشکل الفاظ کے معنی بتا کر شعروں کا مفہوم نہیں سمجھایا گیابلکہ میر کے کلام کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔معانی و بیان کی خوبیاں اورجدید و قدیم اَفکار سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔فاروقی صاحب نے اپنے مزاج کے مطابق کلامِ میر سے اشعار کا انتخاب کیا ہے۔ان منتخب اشعار کو مشرقی اُصولِ بلاغت پر پرکھا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے وہ اشعار کے لفظی مفہوم کو بیان کرنے کے قائل نہیں ۔وہ میر کے افکار کا نہ صرف تقابلی مطالعہ اورمعنوی تجزیہ کرتے ہیںبلکہ میر کی فکر کے مبدا کا کھوج بھی لگاتے ہیں۔میر تقی میر پر خواجہ احمد فاروقی نے مقالہ تحریر کیا ۔قاضی عبدالودو نے اس پر تبصرہ بھی کیا تھا ۔اس سے پہلے اور بعد میں بھی میر پر کافی کچھ تحریر کیا گیا لیکن جو شمس الرحمان فاروقی کا مطالعہ میر ہے وہ دیگر ناقدین سے منفرد اور جدا ہے۔
شمس الرحمان فاروقی شرح اور تنقید میں فرق نہیں کرتے ۔انھوں نے جلد چہارم کی تمہید میں خیال ظاہر کیا ہے کہ پرانے زمانے میں جب تنقید کا رواج نہ تھا تو شرح کے ذریعے ہی تنقیدی خیالات ظاہر ہوا کرتے تھے ۔پرانے لوگوں کو اس بات کا علم تھا کہ کسی متن کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے کس طرح متن کی گتھیاں سلجھائی جا سکتی ہیںاور اس متن کے معنی کو کس طرح اور کن لفظوں میں پیش کیا جا سکتا ہے۔اتنی باتوں میں تنقید کی کافی گنجائش نکل آتی ہے۔قدیم اُردو تنقید اسی دائرے میں موجود ہے لیکن خاصی مختصر ہے۔حالی اور شبلی نے اس میں وسعت اور گہرائی پیدا کی ہے۔مزید علوم و فنون کے استفادے نے تنقید کے دائرے کو طوالت بخشی ۔ پھر ادبی نظریات رونما ہوئے۔کسی ادبی متن کے متعلق خیالات کے ظاہر ہو نے کا مطلب یہ خیال کیا گیا کہ وہ خیال کسی نظریہ ادب کے تحت ہو ۔شمس الرحمان فاروقی کے خیال میں نظریہ ادب کا ہونا اور بات ہے اور نظریہ بازی کا ہونا اور بات ہے۔نظریہ باز لوگ ادبی متن کے بارے میں کم اور نظریہ کے رد و قبول کے بارے میں زیادہ بحث کرتے ہیں۔ متن پر بحث کرتے کرتے معاملہ کہیں دور جا نکلتا ہے اور متن کی ادبی صفات پیچھے رہ جاتی ہیں ۔اس نکتے کو اپنی تنقیدی رائے پیش کرتے ہوئے وہ بطورِ خاص سامنے رکھتے ہیں ۔ انھوں نے میر کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے اس کا موازنہ غالب سے کیا ہے۔فاروقی نے میر اور غالب کو ایک ہی طرح کا شاعر قرار دیا ہے۔اُنھوں نے دونوں شاعروں کی ذہنی ساخت اور طرزِ فکر میں مماثلت تلاش کی ہے۔اس حوالے سے منصور عالم اپنی کتاب ’’شمس الرحمان فاروقی کی تنقید نگاری‘‘میںلکھتے ہیں :
’’فاروقی کا خیال ہے کہ اگرچہ غالب نے میر سے مضمون کا استفادہ خوب کیا ہے اور اندازِ بیان میں رعایتِ لفظی سے بھی میر کی طرح کام لیا ہے لیکن پھر بھی دونوں کاطریقہ اظہار منفردہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’مظاہرِ کائنات اورزندگی کے تجربات کے تئیں‘‘دونوں کا رویہ مختلف ہے۔اس بات کو فاروقی نے یوں سمجھایا ہے کہ میر نے اپنے کسی پیش رو سے استفادہ کیا ہے توانداز تحسینی اور تقلیدی اختیار کیا ہے۔جب کہ غالب نے میر سے استفادہ کیا ہے تو اپنا تخلیقی انداز برقرار رکھا ہے۔میر کے کلام میں استفادے کی تقلیدی اور تحسینی روش ہونے کی وجہ سے مظاہرِ کائنات اور زندگی کے تجربات کی بہتات ہے۔‘‘(۲)
میر و غالب کا موازنہ کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غالب کے ہاں اس چیز کی کمی ہے کیوں کہ ان کی توجہ تقلید کے بجائے تجرید پر زیاد ہ رہی ہے۔فاروقی نے جس مہارت اور خوش اُسلوبی سے میر اور غالب کی لسانیات کا جائزہ پیش کیا ہے اِس کی مثال عصرِ حاضر کے دیگر ناقدین کے ہاں مفقود ہے۔اُنھوں نے میر کے لسانی برتاؤ اورشاعرانہ کار گزاری کے محاسن کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ غالب مغلوب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔انھوں نے غالب کو نئی تنقید کے فنی اُصولوں کے تحت پرکھا۔ اِس کی مثالیں ان کے غالب پر تحریر کردہ مضامین میں جا بہ جا موجود ہیں ۔’’تفہیمِ غالب‘‘کو بھی اس ضمن میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
فاروقی کی تنقید کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مغرب کے تنقیدی نظریات سے بے جا متاثر نہیں ہوئے اور نہ مشرق کے نظریات کے مرید ہیں ۔جس طرح محمد حسن عسکری شروع شروع میں مغربی نظریات کے پرچارک اور آخر میں مشرق کی روحانیت کے قائل ہو گئے تھے ۔ فاروقی صاحب کے ہاں حسن عسکری کی طرح کاانتہا پسندانہ رویہ نہیں ہے۔حقیقی طور پر دیکھا جائے تو مغربی اور مشرقی شعریات سے فرارممکن نہیں ۔ توازن یا اعتدال اِسی میں ہے کہ دونوں سے استفادہ کیا جائے۔ فکر، شعریات اور تہذیب میں تبادلہ ہر صورت ہوتا رہتا ہے۔اس عمل کو روکنا ناممکن ہے۔ادبی شعریات کا نشو ونما پانا ایک فطری عمل ہے۔اِسے جبری عمل بناناادبی معاملات کو مصنوعی اورغیر متعلق بنا دیتا ہے۔متنوع تہذیبوں کے اشتراکِ باہمی کو نہ تو روکا جا سکتا ہے اور نہ مصنوعی تنفس کے ذریعے انھیں زندہ رکھا جا سکتا ہے۔اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شمس الرحمان فاروقی مشرق زدہ ہیں یا وہ مغرب سے مرعوب ہیں ۔ان کی تنقیدی بصیرت پر اظہار کرتے ہوئے شمیم حنفی لکھتے ہیں :
’’مشرق اور مغرب،قدیم اور جدید،روایتی اور غیر روایتی کا ایک انوکھا امتزاج فاروقی کے مضامین میں ملتا ہے۔چناںچہ فاروقی کے تنقیدی شعور پرمشکل سے ہی کوئی حکم لگایا جا سکتا ہے۔ان کا شعورہمیشہ متحرک اور ارتقاپذیر رہا ہے۔ان کی بصیرت بہت ہمہ گیراور مرتکز،مقصد آگاہ اور تجزیہ کارہونے کے باوجودبہت جاذب رہی ہے۔‘‘(۳)
شمس الرحمان فاروقی طویل عرصے سے اُردو تنقید کے منظر نامے پر حا وی ہیں ۔وہ کام جو نئے نقاد کو کرنا تھے وہ شمس الرحمان فاروقی کے قلم سے سر زد ہو رہے ہیں ۔جہاں میر و غالب پر اُنھوں نے خامہ فرسائی کی ہے وہیں اُنھوں نے افسانے کی تنقید کے حوالے سے کئی اہم مضامین قلم بند کیے۔افسانے کی صنف پر بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنا مخصوص منطقی انداز برقرار رکھا ہے،لیکن حیرت کی بات ہے کہ جب وہ اس صنف کے مقام و مرتبہ کی بات کرتے ہیں تو وہ دلائل سے کم اور مفروضوں سے زیادہ کام لینا شروع کر دیتے ہیں ۔اِسی لیے ان کی افسانے پہ تنقید میں تضادات سامنے آئے ہیں ۔جب وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اُردو ادب میں افسانے پر تنقید بہت کم لکھی گئی ہے کیوں کہ اُردو میں عظیم افسانہ نگار ہی موجود نہیں ہیں ۔ جب عظیم افسانہ موجود نہیں تو تنقید کہاں سے آئے۔غور کیا جائے تو اُردو میں اچھے افسانہ نگاروں کی فہرست خاصی طویل ہے ۔ اِن میں سعادت حسن منٹو جیسا افسانہ نگار بھی موجود ہے ،جسے اردو کے اہم نقاد حسن عسکری نے موپساں کے پائے کا افسانہ نگار تسلیم کیا ہے۔منٹو کے علاوہ ،عصمت چغتائی ،غلام عباس ،قرۃ العین حیدر ،انتظار حسین ،راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر کے نام بھی موجود ہیں ۔شمس الرحمان فاروقی کو اردو ادب میں یہ نام نہ جانے کیوں دکھائی نہیں دیے ۔
شمس الرحمان فاروقی کا خیال ہے کہ جب ہم اُردو ادیبوں کے نام یاد کرتے ہیں تو ہمیں میر ، غالب اور اقبال ہی یاد آتے ہیں ۔ پریم چند ، بیدی اور منٹو کے نام ذہن میں نہیں آتے ۔شمس الرحمان فاروقی اگر بیدی، منٹو اور پریم چند کا موازنہ ان کے ہم عصر شعرا سے کرتے ،جن میں فیض احمد فیض ، راشد، میرا جی اور مجیدامجد وغیرہ شامل ہیں تو اُنھیں یقیناشاعری کی طرح اُردو افسانے میں منٹو ،بیدی اور غلام عباس کے نام یاد آتے ۔اُنھوں نے افسانے کی صنف کو ناول کے مقابلے میں وہی مقام دیا جو غزل کے مقابلے میں رباعی کا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ رُباعی کے بل بوتے پر کوئی اُردو شاعر بقائے دوام حاصل نہیں کر پایا۔اِس کی مثال دیتے ہوئے اُنھوں نے اموں جاں ولی دہلوی،جگت موہن لعل رواں اور اَمجد حیدر آبادی کے نام گنواتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کیا یہ لوگ میر اور غالب کے برابر ہو سکتے ہیں ۔یہ بات مان لی جائے کہ یہ برابر نہیں ہو سکتے لیکن عمر خیام جیسے رباعی گو شعرا کوکس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔
شمس الرحمان فاروقی نے بیانیہ کو افسانے کی بنیادی صنف قرار دیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ا س کے بغیر افسانے کا تصور ممکن نہیں ۔ بیانیہ ہی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے وہ اسے اہمیت دیتے ہیں ۔وہ Narrationاور Statementمیں فرق کرتے ہیں ۔اس سے پہلے اُردو افسانے کی تنقید میں ممتاز شیریں نے اس موضوع پر بحث کی تھی لیکن ان کے ہاں وہ استدلا ل موجود نہیں جو ہمیں شمس الرحمان فاروقی کے ہاں نظر آتا ہے ۔اس حوالے سے بحث کرتے ہوئے غلام عباس گوندل اپنی کتاب ’’اردو افسانے کی تنقید اور شمس الرحمان فاروقی‘‘میںلکھتے ہیں :
’’بیانیہ وہ ہے جس سے مکالمے سے زیادہ کام نہ لیا گیا ہواور ان میں داستان بیان کی گئی ہو،خود مصنف کی زبانی یا مصنف کسی کردار کو بیان کرنے کے لیے آگے کر دیتا ہے۔بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے علی الترتیب بیان ہوتے ہیں ۔(۴)
شمس الرحمان فاروقی نے اُردو تنقید میں پہلی بار بیانیہ پر تفصیلی بحث کی ہے ۔محض بیانیہ ہی نہیں اُنھوں نے فکشن کے دیگر Toolsپر بھی تنقیدی آرا پیش کی ہیں۔وارث علوی اور عابد سہیل ایسے فکشن کی تنقید لکھنے والے ناقدین بھی شمس الرحمان فاروقی کی تنقیدی سطح کو مس نہیں کر پائے۔اردو میں فکشن کی تنقید لکھنے والے نقاد اس بات سے بحث کرنے سے کتراتے رہے ہیں کہ بیانیہ کیا ہے؟اس کی کتنی اقسام ہیں؟اور ان میں فکشن کا کیا مقام ہے؟بیانیہ میں فکشن کو جو مقام حاصل ہے اس کی کیاوجہ ہے؟افسانے کے مصنف، راوی اور اس کے مفروضہ مخفی مصنف میں کیا فرق ہے؟اور ان تینوں کی کشا کش افسانے پر کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہے؟افسانے میں واقعہ Eventکس چیز کو کہتے ہیں ؟کتنی طرح کے Eventممکن ہیں؟ کیا مختلف قسم کے Eventمختلف قسم کے کا فکشن بناتے ہیں؟ (۵)اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن کا مدلل جواب شمس الرحمان فاروقی کے علاوہ اردو کے کسی نقاد نے دینے کی کوشش نہیں کی ۔ اگر کہیں کوشش کی بھی ہے تو وہ ادھوری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم شمس الرحمان فاروقی کو اردو فکشن کی تنقید کا اہم نقاد قرار دے سکتے ہیںکیوں کہ انھوںنے فکشن اور بالخصوص اردو افسانے پر خاص توجہ دی ۔
ادبیاتِ عالم میں لفظ و معنی کی بحث اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود ادب کی تاریخ ۔ یونان میں افلاطون سے لے کر بھرت منی اور قدامہ ابنِ جعفر تک کی تنقیدات میں لفظ کی ماہیت اوراس کی معنویت کی بحثیں موجود ہیں ۔بیسویں صدی عیسوی میںساٹھ کی دہائی اس حوالے سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اس دور میں لفظ و معنی کی بحث میں قرأت کے عمل کو داخل کرنے کی جو کوشش ہوئی وہ حیرت انگیز طور پر انقلابی ہے۔اس دور میں ایسے خیالات منظرِ عام پر آئے کہ اُنھوں نے لفظ و معنی کی جملہ روایتی بحثوں کو مسترد کر دیا۔اس دور کے ماہرِ لسانیات اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی بھی متن کے تشکیلی الفاظ محض وہ معنی بیان نہیں کر رہے ہوتے جن کے بیان کرنے پر وہ مامور ہوتے ہیں۔یعنی لفظ متن کے سیاق و سباق میں وہ معنی بھی بیان کر رہے ہوتے ہیں جو منشائے مصنف اور منشائے متن کی حدود سے باہر ہوتے ہیں ۔ قرأت کے اس عمل کو مابعد جدید تنقید میں ’’ردِ تشکیل‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ژاک دریدا وہ پہلاشخص ہے جس نے قرأت کے اس عمل پر سب سے پہلے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس حوالے سے اس کی کتاب ــ”Of Grammatology” اہمیت کی حامل ہے۔اس کتاب میں ژاک دریدا نے متن کے ہر طرح کے مرکز کو رد کیا ہے اور متن کے پس منظر میں موجودمعنی کو پیش منظر میں لانے کی کوشش کی ہے۔اس نے مذکورہ کتاب میں متن کے مستحکم تشخص کو توڑا ہے اور خیال ظاہر کیا ہے کہ متن کی ہر قرأت سابقہ قرأت سے مختلف ہوتی ہے۔بعد میں یہی تصور رولاں بارتھ کے ہاں قاری کی فضیلت میں منتقل ہو جاتا ہے۔شمس الرحمان فاروقی کی تنقید میںمذکورہ جہات کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔اُنھوں نے ساختیات کے جس پہلو کا زیادہ اثر قبول کیا ہے وہ فکشن کی تنقید کے نظریات سے متعلق ہے۔ان کی کتاب’’ افسانے کی حمایت میں‘‘ ساختیاتی نظریے کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ادب پر ساختیاتی تھیوری کے اثرات کے حوالے سے ان کا خیا ل ہے کہ وہ سوسئیر سے زیادہ کلاڈ لیوی سٹراس نے زیادہ اثرات مرتسم کیے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اسطور پر زیادہ کام کیا اور ادب کا تعلق اسطور سے گہرا ہوتاہے۔اس لیے لیوی سٹراس کے کام کا اثر ادب کے ناقدین پرزیادہ پڑا۔اس کے علاوہ بارتھ اورتودوروف نے بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔
شمس الرحمان فاروقی مابعد ساختیاتی تنقید کو ،مارکسی تصورات کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے مترادف خیال کرتے ہیں ۔ مابعد ساختیاتی تنقید کا کوئی ایک انداز یا رنگ نہیں ہے۔یہ ایک طرح کا لیبل ہے جس کے تحت طرح طرح کے لوگ آتے ہیں ۔ان میں جس چیز کا اشتراک ہے وہ قدر(Value) میں عدم دلچسپی ہے۔ساخت شکن تنقید پیاز کے چھلکے کی مانند ہے جس میں چھلکے ہی چھلکے ہیں مغز نہیں ہے۔اسی لیے فاروقی نے اپنی تنقیدکی بنیاد فلسفیانہ تھیوریز پر نہیں رکھی اور نہ پہلے سے طے شدہ فیصلوں پر استوار کی ہے۔ان کی تنقید کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ فلسفیانہ موشگافیوں کو بڑی آسانی کے ساتھ سلجھاتے چلے جاتے ہیں ۔ حالاں کہ انھوں نے جن موضوعات کو مرکزِ بحث بنایا ہے،وہ اتنے سادہ اور عام فہم نہیں ہیں۔صحتِ الفاظ،عروض،صنائع بدائع،وزن و آہنگ کے علاوہ فکشن کے بنیادی مباحث ،اصناف، ادب کا تہذیبی و ثقافتی پس منظر اور جدید اور مابعد جدید ادبی نظریات ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں ،جن پر اُنھوں نے خوب صورتی سے خامہ فرسائی کی ہے۔ وہ پہلے ایک سوال گھڑتے ہیں اور پھر اس کے گردبحث کا سلسلہ شروع کرتے ہیں اور پھرخود ہی اس کی پیچیدگیاں سلجھاتے چلے جاتے ہیں ۔قاری کومحسوس ہوتا ہے کہ اب منطق اور استدلال کا ایک پیراڈائم تشکیل پذیر ہو چکا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے عقدہ کی گرہ کشائی ہوجاتی ہے۔مثلاً ’’ شعرِ شور انگیز‘‘ کی ابتدا ہی ایک سوال سے ہوتی ہے۔’’کیا شاعری کی پہچان ممکن ہے؟اگر ہاں تو کیا اچھی شاعری اور بری شاعری کو الگ الگ پہچاننا ممکن ہے؟اگر ہاں تو پہچاننے کے یہ طریقے معروضی ہیں یا موضوعی؟‘‘سوالات کا ایک سلسلہ ہے جو بڑھتا چلا جاتا ہے اوراِن سوالات سے پیدا ہونے والے مباحث کے دوران میں مشرقی و مغربی تصورات ،علمی و فنی مباحث بھی در آتے ہیں ۔فاروقی کا یہ طرزِ تنقید انھیں اپنے عہد کے دیگرناقدین سے ممیز کرتا ہے۔

حوالہ جات
۱۔ محبوب الرحمان فاروقی ،میرے بھیّا،مشمولہ :شمس الرحمان فاروقی(شخصیت اور ادبی خدمات)،مرتبہ:احمد محفوظ،مشمولہ کتاب گھر،ماہنامہ،نئی دہلی،۱۹۹۴ء،ص:۳۳
۲۔ محمد منصور عالم ، شمس الرحمان فاروقی کی تنقید نگاری ،نئی دہلی: انجمنِ ترقی اردو،۲۰۰۷ء،ص:۲۰۴
۳۔ شمیم حنفی،فاروقی کی تنقید نگاری سے متعلق چند باتیں،مشمولہ:شمس الرحمان فاروقی(شخصیت اور ادبی خدمات)،ص:۱۳۴
۴۔ غلام عباس ، اردو افسانے کی تنقید اورشمس الرحمان فاروقی،فیصل آباد:مثال پبلشرز،۲۰۱۵ء،ص:۱۱۲
۵۔ ایضاً،ص:۱۱۵

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. G Mustafa

    دسمبر 25, 2020

    ماشاء اللہ بہت پیارا لکھا ہے سر جی

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں