تنقید

’’کوئی اور ستارہ ‘‘ کا شاعر ۔۔۔توصیف تبسم ؔ : یونس خیال


یونس خیال
اتفاق یہ ہے کہ ’’ کوئی اور ستارہ ‘‘ کے شاعر سے میری ابھی تک ملاقات نہیں ہے لیکن جب سے مجھے اس کاشعری مجموعہ پڑھنے کوملا، اپنائیت کاایک خوشگوار احساس ضرورموجودہے ۔گویاڈاکٹرتوصیف تبسم سے میراتعلق ان کے اشعارسے ابھرتی فکری سطحوں کی نسبت سے ہے ۔تعلق کی یہ سطح ،شخصی تعلق ذراہٹ کر،کچھ دائمی سی ہواکرتی ہے کیوں کہ لفظوںکی اوٹ سے جھانکتے فکر ی رویے وقت اور شخصیات کے انتخاب کے تابع نہیں ہواکرتے۔
ذات اور کائنات کی مسافتوں کے نکات ہمیشہ سے اہل فکر طبقات کے موضوعات رہے ہیں۔ توصیف تبسمؔ کی شاعری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ذات سے باہرجھانکنے اور پھراِسی ذات میں پناہ لے کر زندگی کی تلخیوں سے چھٹکاراحاصل کرنے کا رویہ کئی شاعروں کے ہاں خوب صورت اشعار کی صورت میں نظرآتاہے ۔ بیدل ؔحیدری کا معروف شعراس کی ایک عمدہ مثال ہے۔
گرمی لگی توخود سے الگ ہوکے سوگئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
(بیدلؔ حیدری)
توصیف تبسمؔ ایک ایساشاعرہے جس نے نہ صرف اپنی ذات کی قیدسے باہرنکلنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی ہے بلکہ رہائی کے بعدخودکو افقی سطح پرپھیلانے کی بجائے ایک مشکل عمودی مسافت کا انتخاب کیاہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے اور اس کے اسرارورموز سے آشنائی ہی میں زندگیاں بیت جاتی ہیں۔اس مسافت میں منزل تک پہنچنے کی بجائے منزل کاتعین اہم ہواکرتاہے۔ توصیف تبسمؔ جسم کی قید سے محض فرارنہیں چاہتا۔اس کے ہاں مستقل تبدیلی کی خواہش شدت سے دکھائی دیتی ہے
ہوں ایک عمر سے اوڑھے ہوئے بدن اپنا
جو بن پڑے توبدل لوں نہ پیرہن اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین سرکے جگہ سے کہ آسماں ٹُوٹے
طلسمِ جاں سے نکلنے کی کوئی صورت ہو
جسم کی قیدسے روح کی رہائی کایہ عمل ایک لمبی ریاضت کا متقاضی ہواکرتاہے۔بظاہریہ پھول سے خوشبوکے الگ ہونے کے عمل سے مشابہ ہے لیکن جسم اورروح کے مابین جڑے رشتوں اور جذبوں کے تانے بانے انسانی نفسیات کے ساتھ عجیب سے کھیل کھیلتے رہتے ہیںاور رہائی کے اس عمل کو پیچیدہ تربنادیتے ہیں۔ایک الجھی ڈور کی مانند،جسے سلجھاتے ہوئے اِس مسافت کے اکثرمسافر اپنی منزل کھودیتے ہیں اورکچھ راستے ہی میں اپنی کامیابی کااعلان کردیتے ہیںکیونکہ انہیں منزل کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا۔
’’ کوئی اور ستارہ ‘‘ کا شاعر اس معاملے میں کسی الجھن کا شکارنظرنہیں آتا۔وہ منزل کی پیچیدگی سے آگاہ ہے اورمسافت کے دوران اپنی وقتی تھکاوٹ کوتسلیم کرنے میںکسی قسم کی قباحت محسوس نہیں کرتا ۔اسے علم ہے کہ منزل مسلسل جدوجہدکے بعد ملتی ہے۔اورراستے کے چھوٹے موٹے پڑاو نشانِ منزل ہوا کرتے ہیں۔
صبح سے پہلے بدن کی دھوپ میں نیند آگئی
او رکتنا جاگتا میں رات کا جاگا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسماں غرق ہے پانی میں نکالوں اس کو
پاوں ٹھہریں جو تہہ آب ، نکالوں اس کو
’’ کوئی اور ستارہ ‘‘ کے شاعرکی اپنی ذات سے رہاہونے کی خواہش کی تکمیل میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس کے ہاں حقیقت سے فراری رویے کا عنصرکسی بھی طرح موجود نظرنہیں آتا۔اس کے ہاں قیس سی جنونیت ہے اور نہ ہی ایک صوفی کی طرز سی بے قراری۔اس نے اپنی منزل کا تعین اپنے فکری معیارکی بنیادپرکررکھاہے۔ذات سے باہرکے معاشرتی مسائل اورطے شدہ مشکلات سے آگاہی کے باوجود اس نے اس سفر کاانتخاب کیاہے۔اسے اپنے قدکاٹھ کااندازہ بھی ہے اور اپنی عزتِ نفس کااحساس بھی ۔اس معاشرے میں عمودی مسافت پرنکلتے ہوئے اپنا دامن بچا لینا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔
صدشکربے کسی میں برہنہ نہیں ہوا
پیوند میرے جسم کے میری قبا میں ہیں
ہماراشاعر جس معاشرے میں سانس لیتا ہے وہاں کی ناہموایوں کو شدت سے محسوس بھی کرتا ہے لیکن ردِعمل کے طورپر اس کے ہاں چیخ ہے اور نہ شور کی کیفیت ۔بس ایک سلجھاسااحتجاج۔اس احتجاج کے لیے اس نے کچھ مخصوص علائم کاانتخاب کیا ہے۔’ ’صحرا‘‘ ،
’ ’ برف‘‘ اور’’ پتھر‘‘ اس کی پسندیدہ علامتیں ہیں ۔ ’’ پتھر‘‘ کی علامت اس کے ہاں معاشرتی بے حسی،احساس کی موت اورشخصی بے چارگی کا شدت سے احساس دلاتی ہے۔
رات گئے تک برف نے جیسے بانٹی تھیں تصویریں سی
صبحِ مسافت اُٹھ کردیکھا ، سارا شہر تھا پتھر کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب لوگ ہیں جن کے بدن ہیں پتھرکے
سراغِ غم نہیں ملتاکسی کی صورت کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کردیاشدتِ احساس نے پتھرتوصیفؔ
کوئی روتاہے تواب دل نہیں دکھتامیرا
ایک اچھافنکاراپنے فن کاخوداچھانقادبھی ہوتاہے اوراس کے اندرکا تنقیدی رویہ ہی اس کے فن کے اصل معیارکاتعین بھی کرتاہے۔لیکن یہ خوبی ہرکسی کے حصہ میں ممکن نہیں ہوتی۔ ’’ کوئی اور ستارہ ‘‘ کاشاعراس امر سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اس نے اپنے لیے
( اور شاید سب کے لیے )فنی معیار کاایک خاص پیمانہ بھی مقررکررکھاہے۔
توصیفؔ فن یہی ہے کہ اس دل کی خاک سے
پیکر خود اپنے قد کے برابر اُٹھائیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا ہُنر بھی کوئی شکل دے سکا نہ تجھے
نظرمیں گرچہ تری ہراداکا پیکرتھا
ڈاکٹر توصیف تبسمؔ کی نظموں کے موضوعات اس کی غزلوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں۔اُس کی غزل مشاہداتی دور سے بہت آگے نکل کر ذات سے کائنات تک کی ایک طویل مسافت کی داستان ہے جب کہ اس کی نظم میں محبت میں ناکامی اورپھرمحرومی کاعکس نمایاں ہے۔یہ نظمیں شاعر کی ذات کے گردگھومتے ،جلتے بجھتے ،ایسے روشن دائروں کی مانند ہیں جن کی لَو میں ایک دل گرفتہ عاشق کا اصلی روپ دیکھا جا سکتا ہے۔ فنی اور فکری ،ہردوسطح پریہ نظمیں قاری کواپنی گرفت میں لیتی ہیںاور پھر اسے ایک خاص ماحول سے مانوس کرواتی ہیں۔
ان نظموں میں شاعرکی زندگی کے شب وروزبکھرے پڑے ہیں ۔ہرنظم ایک مکمل تصویر کی صورت دکھائی دیتی ہے ۔ ہر کسی کی اپنی زبان ، اپنا انداز اور اپنی کتھاہے ۔محبت،ان نظموں کی روح ہے۔شاعر کی طرف سے اعترافِ محبت اور پھراس میں ناکامی پر ایک دکھ کے احساس کاشُستہ انداز میں ااظہار، ان نظموں کی اصل خوب صورتی ہے۔
اُسے دیکھتا ہوں
تومحسوس ہوتا ہے
جیسے مری دسترس سے اُدھر
پانیوں میںکنول کھل رہاہو!
اگرمیں اِدھر،
اس کنارے پہ انگلی ڈبودوں
تواک لہر اٹھے
جو بڑکرابھی پھول کاجسم چھُولے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیگتی جارہی ہے چاندنی رات
تربترہوگئی ہے گُل کی جبیں
رات کے پاس کتنے آنسوہیں
میری آنکھوں میں ایک اشک نہیں
(آخرِشب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے ہاتھ ،مرے جسم کوسہلاتے ہوئے
سامنے حدِنظر، کمرے کی جامد دیوار
ٹوٹی کھڑکی کے شکستہ شیشے۔
ابھی ایک جھونکااسی راہ سے درآئے گا،
اوریہ راکھ،
یہ چنگاریاں ۔۔۔۔ تمشیل مرے ارمانوں کی،
دور تک فرش پہ بچھ جائیں گی!
( زمستاں کی آخری رات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں جذبوں سے پروئی ان تصویروں کے حوالہ جات دیے جانے کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہمارے شاعر کے ہاں نظموں کی بنیاداُس کے صرف ذاتی محبت کے تجربات ہیں(اوراگرایسابھی ہوتاتویہ نظمیں اردوادب کااثاثہ ہی ہوتیں)۔’’ ہتھیلی پہ لکھی نظمیں ‘‘ کے شاعر توصیف تبسم ؔ کی نظموںکے موضوعات آفاقی نوعیت کے ہیں۔’’ہابیل کی موت‘‘، ’’فن ‘‘ ، ’’آگہی‘‘، ’’ہم زاد ‘‘ ، ’’ تمثیل ‘‘ اور ’’آخری مکالمہ‘‘ جیسی نظموں کاخالق یقینا اس عہد کاایک بڑاشاعرہے۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں