جناب محمد الیاس الاعظمی ہندوستان اور پاکستان کی علمی ادبی حلقوں میں ماہر شبلیات کے حوالے سے جانا پہچانا نام ہیں۔ باوجود یہ کہ شبلیات کے علاوہ بھی آپ کا قلم مختلف شخصیات اور موضوعات پر گہرباری کرتا رہتا ہے، لیکن اصل پہچان ان کی شبلیات کے حوالے سے منفرد کام اور علامہ شبلی کی تحریرات اور نایاب شہ پاروں کی دریافت اور اشاعت ٹھہری ہے۔ ہندوستان کے کئی بڑے ایوارڈ اپنے علمی وادبی کارناموں کے سبب وصول کر چکے ہیں۔ اور سب سے بڑا اعزاز تو دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کی آنریری فیلوشپ ہے۔ جو منتخب لوگوں کو دی جاتی ہے۔ اس سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔ ہند و پاک کے ایک درجن رسائل کی مجلس ادارت و مشاورت میں ان کا نام شامل ہے۔ پاکستان کے مجلہ ’’فکر و نظر اسلام آباد‘‘ اور ’’جہات الاسلام لاہور‘‘ کی مجلس مشاورت میں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی علمی و ادبی حلقوں میں بعض قلمکار ان کے نام گرامی سے پہلے ’’حضرت مولانا‘‘ کے الفاظ ان کے کام سے متاثر ہو کر لگاتے رہتے ہیں۔ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اتنا معیاری اور مستند کام ایک منجھے ہوئے عالم دین اور بڑے مولانا کا ہو سکتا ہے۔ خود میں نے بھی ان کی بعض تحریرات پڑھ کا آپ کو عالمِ تصور میں مولانا کی پگڑی پہنائی تھی۔ اور ’’حضرت مولانا‘‘ کا لفظ آپ کے نام سے پہلے لگانا لازمی سمجھ بیٹھا تھا۔ اگرچہ بقول ان کے ’’میں نے عالمیت کے بعد جدید علوم کی تحصیل و تکمیل کی ہے۔‘‘ اللہ بھلاکرے فیس بک کا جنہوں نے اعظمی صاحب کی شخصیت کی یہ تخیلاتی عمارت جو میرے ذہن کے ایک کنارے پر بڑی شان و شوکت سے کھڑی تھی۔ ایک ہی گھڑی میں زمین بوس کرادی۔ پھر ان سے محبت و عقیدت کا رشتہ جڑا۔ اور ان کی شخصیت کی وہ عمارت دل و دماغ میں وجود پذیر ہوئی جو کبھی مسمار نہ ہو گی کیونکہ اس عمارت میں محبت، عقیدت، کردار اور عمدہ اخلاق، اعلیٰ حوصلگی اور ذرہ نوازی کا وہ میٹریل شامل ہے جو کبھی ایکسپائر نہیں ہوتا۔ وہ عرصہ دو تین سال سے مجھے اپنے کالم اور مضامین جدید مواصلاتی نظام کے ذریعے بھیجتے رہتے ہیں۔ جس سے میرے دل میں بنی ان کی شخصیت کی عمارت روز بروز حسین ہوتی جاتی ہے۔ اور استفادہ بھی جاری رہتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کے حوالے سے ان کے کام پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو لامحالہ یہ کہنا پڑے گا کہ بے شک یہ شخص شبلیات کے حوالے سے تن تنہا ایک اکیڈمی کا کام کر رہے ہیں۔ شبلی نعمانی کے حوالے سے ان کا کام ہمہ جہت ہے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے بعد شبلی شناسی میں آپ کا مقام مسلم ہے اور آپ کو بجا طور پر ماہر شبلیات کے نام سے یاد کیا جا سکتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ کے بارے میں آپ کی متعدد کتابیں چھپ کر اہل علم سے داد و تحسین وصول کر چکی ہیں اور کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے ان کی کتابوں کا مختصر تعارف نذر قارئین ہے:
نوادرات شبلی: علامہ شبلی کی نو دریافت تحریروں کا مجموعہ، جو پہلے کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہیں۔ علامہ شبلی کے چار مضامین، سات خطبات، سولہ دیباچے اور تقریظات، چھبیس خطوط اور دو مراسلات اور اعظمی صاحب کے حواشی و تعلیقات ،تشریحی و توضیحی نوٹس شامل ہیں۔
مکتوبات شبلی: علامہ شبلی کے ان خطوط کا مجموعہ جو مکاتیب شبلی اور خطوط شبلی میں شامل نہیں۔
متعلقات شبلی: اعظمی صاحب کا علامہ شبلی سے متعلق پہلا مجموعہ مضامین و مقالات۔
آثار شبلی : علامہ شبلی کے علمی ادبی تعلیمی اور سیاسی کارناموں کا مفصل جائزہ۔
کتابیات شبلی: مولانا شبلی کی تصنیف و تالیف ان کے مضامین و مقالات اور ان کے حوالے سے لکھی گئی تمام تر تحریروں اور کتابوں کا تمام ممکنہ گوشوں کو محیط اشاریہ۔
شبلی اور جہان شبلی: مصنف نے اس کتاب میں علامہ شبلی سے متعلق دس اہم اور تحقیقی مضامین و مقالات یکجا کئے ہیں۔ جن میں سے بعض تحریرات دریافت و بازیافت کا درجہ رکھتے ہیں۔
اقبال اور دبستان اقبال : اس کتاب میں دبستان شبلی سے تعلق رکھنے والی شخصیات، دارالمصنّفین اور ماہنامہ معارف کا اقبال سے تعلق کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
مراسلات شبلی : غالباً علامہ شبلی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اخبارات میں مراسلے لکھنے کی طرح ڈالی۔ اس کتاب میں علامہ شبلی کے اردو عربی مراسلات سو سال بعد قدیم رسائل و جرائد سے یکجا کرکے جدید انداز تحقیق و تدوین کے عین مطابق مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔ مراسلات کی تعداد چھبیس ہے اس میں بعض نو دریافت مراسلے بھی شامل ہیں۔ اعظمی صاحب کے قیمتی حواشی و تعلیقات نے اس کتاب کی قیمت میں دو چند اضافہ کر دیا ہے۔
شذرات شبلی: علامہ شبلی نے ماہ نامہ ’’الندوہ ‘‘ لکھنومیں جو شذرات لکھے تھے یہ ان کا مجموعہ ہے۔
شبلی شناسی کے سو سال : رسائل و جرائد کے خصوصی شماروں کا مطالعہ ۔اس کتاب پر ڈاکٹر سفیر اختر صاحب کا مفصل تبصرہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
علامہ شبلی کے نام اہل علم کے خطوط: اعظمی صاحب نے اس کتاب میں علامہ شبلی نعمانی کے نام اہل علم کے خطوط جمع کئے ہیں۔ جن میں سرسید احمد خان، نواب محسن الملک، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی، حمید الدین فراہی، علامہ اقبال، ابوالکلام آزاد، نواب سلیم اللہ خاں، عطیہ فیضی وغیرہ شامل ہیں۔
شبلی سخنوروں کی نظر میں : اساطین علم و ادب کا علامہ شبلی کے حضور نذرانہ عقیدت و محبت اور اعترافِ عظمت کے بیان پر مشتمل دستاویز۔
علامہ شبلی کی تعزیتی تحریریں: موضوع نام سے ظاہر ہے محتاج بیان نہیں۔
شبلی خودنوشتوں میں: کتاب کے نام ہی سے موضوع کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اعظمی صاحب کو خودنوشتوں کے مطالعہ سے خاصی دلچسپی ہے، لہٰذا اپنی اس دلچسپی کے پیش نظر انہوں نے خودنوشتوں کے مطالعہ میں اپنی تحقیق کے محور شخصیت علامہ شبلی نعمانی کو ٹھہرایا۔ چنانچہ کم و بیش چوبیس خودنوشتوں سے علامہ شبلی نعمانی، ان کی تصنیفات اور ان کے ہمہ جہت کارناموں کا ذکر، ان کی زندگی کے بعض فراموش شدہ واقعات کو کشید کر کے اس کا عصارہ ’’شبلی خودنوشتوں میں‘‘ کی صورت میں پیش کر دیا۔ اعظمی صاحب کی نئی آنے والی کتاب بھی شبلی کے حوالے سے ہی ہے جو ’’نقوش شبلی‘‘ کے نام سے زیر طبع ہے۔ جس میں علامہ شبلی نعمانی کی سیرت و شخصیت پر تحقیقی مقالات جمع کر دئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اعظمی صاحب کی تحقیق و تدوین کے ساتھ علامہ شبلی کی دو کتابیں ’’اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر‘‘ اور موازنہ انیس و دبیر‘‘ بھی چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ آپ کی شبلی شناسی کے تجزیہ و تعارف پر محترمہ شائستہ ریاض نے ’’ڈاکٹر الیاس الاعظمی بہ حیثیت شبلی شناس‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب ’’ادبی دائرہ اعظم گڑھ‘‘ سے چھپ گئی ہے