لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبرہےکہ واں جُنبشِ قلم کیا ہے
غالبؔ
——————
ستیہ پال آنند
“لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود”
حضور، “کوئی” سے آخر مر اد کیا ہے یہاں؟
مر زا غالبؔ
تمہی بتاؤ، عزیزی، کہ کیا سمجھتے ہو
ستیہ پال آنند
جناب، میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا
اگر خدائے دو عالم نہیں ہے خود کاتب
تو کوئی منشی، کوئی پیش تاز کارندہ
کوئی فرشتہ، کوئی کاتبِِ قضائےجہاں
جسے خدا نے ہی یہ اختیار سونپا ہے ؟
مر زا غالبؔ
درست ہے یہ مگر اختیار کس کا ہے؟
ستیہ پال آنند
خدا کا ہے تویقیناً مگر یہاں تو، حضور
خود آپ نے ہی یہ جھگڑا کھڑا کیا ہوا ہے
مرزا غالبؔ
ذرا بتاؤ تو “جھگڑا” کہاں ہے ، ستیہ پال؟
ستیہ پال آنندؔ
خدا نہیں ہے، تو یہ “کوئی” کون ہے،کاتب ؟
کوئی محرّر و منشی کہ تیز لکھتا ہے
مقدرِطفلانِ حیاتِ نو کا حال
جسے خدا کی طرف سےہے اختیار کہ وہ
جسے بھی چاہے،برو مند، نیک بخت لکھے
اگر نہ چاہے تو اس کو ہی بد نصیب لکھے
مرزا غالبؔ
اس ایک لفظ پہ اتنی خلش، یہ بغض و فساد؟
کوئی تو وجہ بتاؤ ، کہ میں نہیں سمجھا
ستیہ پال آنندؔ
اگر خدا ہے تو ۔۔”کوئی” ہے اور کون، حضور؟
خدا ہی واحد و یکتا ہےلکھنے والا یہاں
کسی بھی طفلِ نَووارد کی زندگی کا حال
کہ نیک بخت و خوش آئند و شادماں ہوگا
رہے گا زندگی بھر ننھا دُرِّ نا سُفتہ
کہ اِس صبی کے مقدّر میں ہے ملال بہت
رہے گا نا خوش و بد حال و خستہ و محروم
مرزا غالبؔ
تمہاری ضد بھی تو اک طفلِ نو نہال کی ہے
چلو، یہ مان لیا، “کوئی” نا مناسب ہے
اب اور جو بھی تمہیں کہنا ہو، خوشی سے کہو
ستیہ پال آنندؔ
حضور، آپ ذرا اس پہ غور فرمائیں
’’لکھا کرے کوئی احکام‘‘ … کون سے احکام؟
کوئی نوشتۂ دیوار۔۔۔ اخروی؟ شدنی؟
کہ اس کے ماتھے پہ لکّھی گئی ہے بد حالی
تمام عمر تپسیاَ، سعی ء لاحاصل
کہ یہ نوشتۂ تقدیر تو مبارک ہے
بتا رہا ہے کہ مولود کی پہُنچ میں ہے
مراد مندی و فتحو ظفر و خوش حالی؟
مرزا غالبؔ
یہ سب درست ہے، احکام ایک جیسے ہیں
کسی کے واسطے تہنیت و ارادت و اُنس
کسی کے واسطے برگشتگی، عناد و نفور
ستیہ پال آنندؔ
یہ سب درست ہے، لیکن حضور فرمائیں
اگرخدا کے نہیں ہیں تو کس کے ہیں احکام؟
حضور، یہ تو بتائیں کہ کوئی اور بھی ہے؟
جو پیچھے بیٹھا ہوا جنبشِ ِ قلم کے لیے
ہدایتیں دیئے جاتا ہے ۔۔۔ لکھنے والے کو؟
اگر ہے کوئی پسِ ِ پردہ، اس کا مائی باپ
اتا پتہ، کوئی استھان، بود و باش، مکان؟
ٰیہاں ؟ وہاں؟ کہاں؟ ہر جا، جگہ جگہ، ہمہ جا ؟ ؟ ؟
مرزا غالبؔ
میں کیا بتاؤں تمہیں، اے عزیز ستیہ پال
ہے کون ؟ اور کہاں ہے؟ یہ تم بھی جانتے ہو
وہ اسمِ ذات ہے، اللہ، داورِ محشر
وہی ہے ہستیء مطلق، وہی علیم و رحیم!