تنقید

ڈاکٹرستیہ پال آنند بنام مرزاغالبؔ (۳)

جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز  وہم  نہیں  ہستئ اشیا  مرے آگے
۰۰۰۰۰
(اس نظم میں ایک تجربے کے طور پر دو بحور کے امتزاج کو روا رکھا گیا)
(ایک) ہے مسترد ، خارج شدہ میرے لیے وہ شے
جو قطع نظر ‘نام’ کے متشکل نہیں ہے
جس کا بناؤ، جس کی بُنت، جس کی بناوٹ
ہو ‘نام’ کے ہی’ نام’ سے تالیف، وہ عالم
میرے لیے تو تشنۂ تکمیل ہے، یعنی
ایسا جہان کندۂ بد شکل رہے گا!
(دو) یہ صورت عالم ہے بھلا کیا، ذرا دیکھیں
بے ربط اکائیوں کا مرقع، قطار بند؟
آہنگ سے، ترتیب سے عاری ، تہ و بالا
کج مج، عبوس، بے تُکی اشکال کی تدوین
کچھ تو ہو خوش ترتیب، نستعلیق، برابر
سانچے میں ڈھلا، احسنِ تقویم کا حامل!
اس نا تراش مرکز ِ اشکال کے لیے
"جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور!”
(تین) "جز وہم نہیں”… وہم ؟ افاعیل ، تفاعیل؟
بے ہودہ، لغو، بے تکا ، ہذیان، خرافات؟
مفہوم سے خالی؟
نو ٹنکی کا اک کھیل؟
(چار) اور "ہستئ اشیا” کا بھلا کیا ہے تصور؟
اک شکلی و صوری و نظامی شبیہہِ ذات؟
اشکال کی فی الواقع ترتیب؟
یا ملک، دیس، مضمرو پیوست جگہ، شہر؟
ہاں ، ہستئ اشیا کا اگر یہ ہے تصور
’’جزوہم نہیں ہستئ اشیا‘‘ مرے آگے!
………………………………………
نوٹ: بظاہر تو یہ شعر سادہ، سلیس اور نستعلیق ہے، لیکن "صورتِ عالم "اور "ہستئ اشیا” میں شاعر
نے جن معانی کا احاطہ کیا ہے، ان پر دفتر کے دفتر سیاہ کیے جا سکتے ہیں۔ (س ۔پ۔آ)

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں