تنقید

ڈاکٹرستیہ پال آنند بنام مرزاغالبؔ (۱۶)

خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے

غالبؔ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند
نگاہ دل سے نکلتی ہے؟ "سرمہ سا” بھی ہے؟
نظر کا "سرمہ سا ” ہونا تو قولِ صالح ہے
نظر کا "دل” سے نکلنا ؟ ۔۔۔ چہ معنیء دار د؟
حضور ، یہ بھی بتائیں کہ کیا تعلق ہے
"خموشیوں میں تماشا ادا” نکلنے کا؟

مرزا غالبؔ
تمہی بتائو ، عزیزی، کہ کیا سمجھتے ہو

ستیہ پال آنند
اگر ہو مر گ مفاجات تو بھی حاضر ہوں
عجب ہے کشمکش دل میں، مگر ذرا سنئے
کہ دیکھنے میں تو سادہ ہے اس کی وضع مگر
کمال گنجلک ہے شعر، واژگوں، بے طور
کوئی خضوع نہیں، سجع غیر حاضر ہے
مگر عمیق نظر سے تو کچھ بعید نہیں
"نگا ہ دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے”
اسی کو دیکھ لیں پہلے اگر اجازت ہو

مرزا غالبؔ
کھڑ ا ہوں گوش بر آواز ، تم کہو تو سہی

ستیہ پال آنند
"نگاہ”، "سرمہ سا” اور "دل” ، انہیں ذرا دیکھیں
"نگاہ” میں ہی چھلکتا ہے "دل” کا پیمانہ
نظر کا دل سے سفر چشم تک بھی طے سمجھیں
پر اس کا "سرمہ سا” ہونا کہاں کی منطق ہے؟
حضور ، آپ ہی فرمائیں اس کے بارے میں

مرزا غالبؔ
عزیز ِ من، یہ تمہاری سمجھ میں آئے گا کیا
کہ سُرمہ کھانے سے آواز بیٹھ جاتی ہے؟
دبی، گھٹی ہوئی، ڈرتی ہوئی، ٹھہرتی ہوئی
نظر کا "سرمہ سا ” ہونا یہی بتاتا ہے

ستیہ پال آنند
اگر "نگاہ” اور "آواز”منسلک ہیں یہاں
تو کیا کہیں گے اس الحاق کو، اضافہ کو؟

مرزا غالبؔ
نگاہ کا بھی تو اک انداز ہے تکلم کا
"اشارہ”، "غمزہ” ہے بے نطق بولنے کا طریقِ
چلیں تو اب، میاں، ہم مصرعِ اولیٰ کی طرف
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند
نگاہ کیسے نکلتی ہے آنکھ سے ؟ یہ سوال
جواب میں ہی توملفوف ہے بہر صورت
خموش رہنا بھی انداز ہے تکلم کا
یہی "تماشا ادا” کی ہے صورتِ اظہار

مر زا غالبؔ
یہی ہیں اصل معا نی ، جہاں تلک سمجھو
نہاں ہے ان میں ہی معشوق کی بصیر تِ قلب
————-

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں