فنا تعلیمِ درسِ بےخودی ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الِف لکھتا تھا دیوارِدبستاں پر
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
’’فنا تعلیم ، درسِ بے خودی‘‘ کو غور سے دیکھیں
توسمجھیں گے کہ یہ پہلی ہی سیڑھی ہے تصوف کی
وجودیت کا ایسا مسئلہ ہے، جس کے کارن ہی
ہمارے بھگتی رس کے اور تصوف کے سبھی شعرا
ہمیشہ ہی سے وابستہ رہے ہیں اور اب بھی ہیں
مرزا غالب
زیادہ تو نہیں میں جانتا لیکن یہ دونوں ہی
فقط علم الیقیں کے نقرئ سکّے کے دو رُخ ہیں
ستیہ پال آنند
بصدتکریم میں یہ عرض کر دوں، آپ شاعر ہیں
مگر تقدیم میں موجد نہیں ہیں اس فضیلت کے
فنا کا درس پانا اور اس تعلیم سے، قبلہ
کسی خود ساختہ ’’میَں پن‘‘ سے چھٹکارہ نہیں ہوتا
مرزا غالب
میں اس پر صاد کرتا ہوں، عزیزی، پریہ بتلاو
کہ میرے شعر سے کیا واسطہ ہے اس حوالے کا؟
ستیہ پال آنند
فقط لا کو سمجھنا ’’لام الِف‘‘ کے درسِ املا سے؟
ظرافت اس پہ کچھ ایسی کہ مجنوں سے مدّرس کو
اک ابجد خواں سمجھنا، اپنی شاگردی میں لے لینا ۔۔
یہ کیسی اُلٹی بازی ہے؟ یہ کیسی ڈینگ ہے، استاد؟
مرزا غالب
بہت گستاخ ہو۔ اے ستیہ پال آ نند، لیکن میَں
تمہاری قدر کرتا ہوں، تمہیں فائق سمجھتا ہوں
کہو ، کچھ اور بھی کہنا ہو گر اس ضمن میں، تم کو
مگرتضحیک یا بے آبروئی سے ذرا بچنا
کہ حفظا نِ مراتب میں ارادت فرض ہوتی ہے
ستیہ پال آنند
معافی، بندہ پرور، کوئی بے ادبی نہیں مقصود
فقط یہ بات کہنا ، میں سمجھتا ہوں کہ واجب ہے
انانیت کی کوئی حد بھی ہوتی ہے،جنابِ من
مگر اس شعر میں ہے خود نمائی آخری حد تک
کہاں تو عاجزی اور پھر کہاں یہ زعم اور دعوےٰ
’’کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر ‘‘
تعّلی ہے ، یہ ہیکڑ ہے، رعونت ہے، توابی ہے
مرزا غالب
تم اپنے آپ میں رہنا نہیں سیکھے ہو، ستیہ پال
ضروری ہےکہ مجھ سے بات میں نیچی نظر رکھو
ستیہ پال آنند
حضور ، اب کیا کہوں میَں اپنی بیباکی کے بارے میں
کہ طبعاً عاجز و مسکین ہوں، خوش خلق ہوں میں بھی
مگر افتادگی، بے اعتمادی کا نہیں قائل
مجھے جو کچھ بھی کہنا ہو، کہے دیتا ہوں پل بھر میں
مرزا غالب
تو پل بھر میں کہو تم اپنا مقطع، ستیہ پال آنند
ستیہ پال آنند
’’فنا تعلیم، درسِ بے خودی‘‘ کے ضمن میں ،آخر
مجھے ، اے کاش، تسلیم و ندامت ، خاکساری کا
کوئی مفہوم ملتا آپ کے اس شعر میں، قبلہ
کسی سے بھی اگر دلّی میں چھیڑوں بات ،استاذی
یہی اک انتزاعی خاتمہ ملتا ہے ہر اک سے
’’نہیں صاحب، انہیں مت پوچھیے خود اُن کے بارے میں
کہ وہ اپنے ہی عاشق ، غالبِ خود بین اصلی ہیں !ـ‘‘