تنقید

ڈاکٹرانورسدید ۔۔۔ فن اورشخصیت : یوسف خالد


ڈاکٹر انور سدید کا شمار اردو ادب کے ان ادباء میں ہوتا ہے جنہوں نے ادب کے ساتھ اپنی وابستگی کوعبادت کا درجہ دیا – اور پوری دیانت سے ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا -ان کی طبیعت میں بلا کا نظم وضبط ہے -انتہائی وسیع المطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ جس برق رفتاری سے انہوں نے اپنے عہد کے ادب کا جائزہ لیا ہے اور اس پراپنی آراء کو احاطہء تحریر میں لائے ہیں -اس پر حیرت ہوتی ہے ان کے کام کو دیکھ کر ان کی علمی و ادبی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے -مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے انہوں نے گراں قدر تحریروں سے اردو کے دامن کو مالا مال کیا ہے -بطور نقاد ،انشائیہ نگار،شاعر،افسانہ نگار،کالم نگار اور محقق ان کا کام انتہائی غیر معمولی نوعیت کا ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا –
ڈاکٹر انور سدید پیشہ کے اعتبار سے انجئینر ہیں اور بطور ایگزیکٹو انجئینر 1988 میں ریٹائر ہوئے -دوران ملازمت 1964 میں جب ان کا تبادلہ سرگودھا ہوا تو ان کی ملاقات عہد ساز ادیب،دانشور،شاعر،انشائیہ نگار اور تنقید نگار ڈاکٹر وزیر آغا سے ہوئی-ڈاکٹر وزیر آغا سے ہونے والی ملاقاتوں نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور بطور خاص تنقیدی فکر میں نکھار پیدا کیا-اور ان کے اندر کا غیر فعال ادیب متحرک ہو گیا -ڈاکٹر وزیر آغا کی محافل میں انہیں سنجیدہ علمی و ادبی کام کرنے کی تراغیب ملیں -اور وہ بتدریج آگے بڑھتے چلے گئے ان محافل نے ان کی تخلیق کاری کو تقویت بخشی اور ان کی تخلیقی شخصیت پر دور رس اثرات مرتب کیے -اس بات کا اعتراف انہوں نے بہت واشگاف الفاظ میں اپنی کتاب "وزیر ایک مطالعہ” میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ”اگر مجھ سے کوئی دریافت کرے کہ میری زندگی پرسب سے زیادہ اثر کس نے ڈالا تو میں بلا تؤقف ایک نام لوں گا —– وزیر آغا ”
ڈاکٹر انور سدید کا کام جو کم و بیش نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے،اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں – انہوں نے تواتر سے لکھا ہے اور ادب کی تمام اصناف پر لکھا ہے- ان کی تصانیف اور تالیفات کی تعداد 60 سے زائد ہے-انہوں نے سرگودھا سے نکلنے والے معروف ادبی جریدہ "اردو زبان” سے بطور پس پردہ مدیر اپنے سفر کا آغاز کیا اور بعد ازاں شہرہء آفاق ادبی جریدے "اوراق” میں بطور شریک مدیر اپنی خدمات پیش کیں-ان کی بہت سی کتب اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک حوالے کا درجہ رکھتی ہیں- جس میں اردو ادب کی تحریکیں،اردو ادب کی مختصر تاریخ،اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش،انتہائی اہمیت کی حامل ہیں -ان کے مطالعہ کی وسعت اور پڑھنے کی ریاضت کا عالم یہ ہے کہ اکثر ادباء نے یہاں تک کہہ دیا کہ اردو ادب میں کوئی لکھا ہوا ایسا لفظ نہیں جسے ڈاکٹر انور سدید نے نہ پڑھا ہو -انہوں نے بے شمار کتب پر اپنے تبصرے تحریر کیے – اور سال 2013 میں انہوں نے 225 کتابوں پر تبصرے تحریر کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا -اس سے ان کی مطالعہ کی وسعت اور زود نویسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے –
ڈاکٹر انور سدید نے وزیر آغا شناسی کے حوالے سے "وزیر آغا ایک مطالعہ” جیسی ایک بہت ہی اہم کتاب ادب کے قارئین کی خدمت میں پیش کی -اس کتاب میں ڈاکٹر انورسدید نے وزیر آغا کی فکری و فنی جہات کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے اس کتاب کو وزیر آغا شناسی کے لیے ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے -یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے -پہلا باب تخلیقی زاویے ہے جس وزیر آغا کی تخلیقی کاری کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان کی نظم نگاری،انشائیہ نگاری،اور غزل کے حوالے سے بہت اہم نکات پیش کیے گئے ہیں – بطور خاص وزیر آغا کی نظم کو سمجھنے کے لیے یہ کوشش بہت ہی قابل قدر ہے -بہت سی نظموں کی تفہیم اور ان نظموں کے عقبی دیار تک رسائی حاصل کی گئی ہے-جدید اردو نظم کو سمجھنے کے لیے کتاب کا یہ حصہ بہت ہی اہم ہے – اسی طرح انشائیہ کی تفہیم ، پہچان اور اس کے محاسن کو سمجھنے کے لیے بھی ڈاکتر انورسدید نے ان صٖفحات میں قاری کے لیے بہت اہم معلومات اور نکات پیش کیے ہیں -جن کی مدد سے انشائیہ فہمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کی انشائیہ نگاری کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو گئی ہے –
کتاب کے دوسرے باب میں ڈاکٹر وزیر آغا کی طویل نظم "آدھی صدی کے بعد” پر بات کی گئی ہے اور اس نظم کی پرتوں کو کھولا گیا ہے -اس اہم ترین نظم کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر انور سدید کی تحریر بہت ہی مدد گار ثابت ہوئی ہے -اسی باب میں کچھ مختصر نظموں پر بھی بات کی گئی ہے جس سے قاری کو وزیر آغا کے فن کو سمجھنے میں مدد ملی ہے –
کتاب کے تیسرے باب میں وزیر آغا کے تنقیدی کام کا جائزہ لیا گیا ہے – جس میں وزیر آغا اور اقبالیات کے حوالے سے وزیر آغا کی تنقیدی بصیرت اور فن پر بات کی گئی ہے -وزیر آغا کے دیباچے اور وزیر آغا کی تکنیک پر بھی سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے –
کتاب کے چوتھے باب میں وزیر آغا کی بطور مدیر خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے – اور اس حوالے سے "ادبی دنیا” سے لے کر "اوراق” تک کے سفر کی مفصل روداد بیان کی گئی ہے – جس سے وزیر آغا کو بطور مدیر سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے –
کتاب کے پانچویں باب میں وزیر آغا سے لیے گئے کچھ انٹرویوز اور کچھ خطوط کا ذکر ملتا ہے – یہ حصہ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر وزیر آغا دونوں کی ذات اور کام کے حوالے سے بہت سے گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے – خصوصآ خطوط کو پڑھ کر دونوں ادیبوں کی سوچ ،فکر اوران کے نظریہ فن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے-
چھٹے باب میں ڈاکٹر انور سدید نے ڈاکٹر وزیر آغا کی ادبی حیثیت پر بات کی ہے اور ان کی ادبی خدمات کی تحسین کی ہے–
کتاب کے ابتدائیہ میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ "زیر نظر کتاب وزیر اغا کے فن کا تنقیدی مطالعہ پیش کرتی ہےاس کتاب میں ان کی شخصیت پر کوئی مضمون شامل نہیں کیا گیا-وجہ یہ کہ وزیر آغا کا ادب ہی ان کی شخصیت ہے-اور یوں بھی بعض انا پرست ادباء کی طرح وزیر آغا نے اپنے اوپر شخصیت کا بوجھ لادنے اور عظمت کا تاجِ زر نگار پہننے کی کبھی خواہش نہیں کی-اور وہ مجھے ایک شاخِ ثمر دار کی طرح نظر آئے جو ہمیشہ جھکی رہتی ہے -وزیر آغا کے فکر و فن پر یہ کتاب شام کا پہلا ستارہ ہے جو مزید کئی ستاروں کو جنم دے گا اور پھر ایک نئی کہکشاں مرتب ہوتی چلی جائے گی جس کا قطبی ستارہ وزیر آغا ہو گا ”
ڈاکٹر انور سدید نے بلا شبہ اس کتاب کے ذریعے وزیر آغا کے فکر و فن کو سمجھنے کے لیے راہیں آسان کی ہیں -اور ان کی ہمہ جہت شخصیت سے قارئین ادب کو روشناس کروایا ہے – پوری کتاب میں ہر زاویہ سے اس عہد ساز ادیب،شاعر اور دانشور کی ادبی و علمی خدمات کا محاکمہ کیا ہے -اور ان کی تخلیقی جہتوں کو نمایاں کیا ہے -کتاب کے آخر میں ڈاکٹر انور سدید نے وزیر آغا کی نظموں ،غزلوں اور انشائیوں کا انتخاب پیش کیا ہے تا کہ قارئینِ ادب کو کسی بھی طرح کی تشنگی محسوس نہ ہو -یوں تو یہ ایک کتاب ہی وزیر آغا شناسی کے حوالے سے ایک مکمل حوالہ ہے -تا ہم اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر انور سدید نے وزیر آغا کے نظریہء فن کی ترویج کے لیے ہر ادبی محاذ پر مخالفین کے اٹھائے گئے اعتراضات کا بھرپور اور مدلل جواب دیا – اور ایک طویل ادبی لڑائی لڑی -جہاں کہیں بھی انہوں نے اعتراضات یا تعصبات پہ اپنا ردِ عمل دیا ان کی تحریر کبھی بھی عامیانہ یا سطحی نہیں رہی -انہوں نے مستند حوالوں سے بات کی اور ذاتیات کو موضوع گفتگو بنانے سے ہمیشہ احتراز کیا –
ڈاکٹر انور سدید کی تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں سے ڈاکٹر وزیر آغا نہ صرف واقف تھے بلکہ ان کے معترف بھی تھے -ڈاکٹر انور سدید کی کتاب”اختلافات” کے دیباچے میں ڈاکٹر وزیرآغا رقم طراز ہیں کہ "شرفا دو طرح کے ہیں— ایک وہ جن کی شرافت ان کی داخلی کمزوری یا بزدلی کا نتیجہ ہے-دوسرے وہ جو اپنی داخلی قوت اور کر گزرنے کی صلاحیت کے با وصٖف شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں-انور سدید کی شائستگی مؤخر الذکر نوع سے تعلق رکھتی ہے-یہ شائستگی ایک طرف تو ان کی سنبھلی ہوئی شخصیت میں خود کو اجاگر کرتی ہے اور دوسری طرف ان کے شائستہ ادبی اسلوب میں-مگر ان کی داخلی توانائی اس شائستہ اسلوب کو ایک انوکھا تیقّن،اعتماد،کاٹ،اور چبھن بھی عطا کرتی ہے جو بالکل ایک نئی بات ہے -”
ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی کتاب "دائرے اور لکیریں” میں ایک بھرپور مضمون میں انور سدید کی تنقیدی صلاحیتوں پر بڑی مدلل اور مفصل گفتگو کی ہے اور انہیں اردو تنقید کا مردِ آہن قرار دیا ہے –
ڈاکٹر انور سدید کی ادبی خدمات انتہائی قابلِ قدر ہیں اور ان کی کتب قارئین کے لیے جدید اردو ادب کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہیں
——————————————
انور سدید کا علمی،ادبی و تخلیقی سرمایہ
اہم تصانیف:
فکرو خیال 1971 (تنقید)
اختلافات 1975 (تنقید)
کھردرے مضامین 1988 (تنقید)
اردو افسانے کی کروٹیں 1992 (تنقید)
موضوعات 1991 (تنقید)
بر سبیل تنقید 1990 (تنقید)
شمع اردو کا سفر 1989 (تنقید)
نئے ادبی جائزے 1989 (تنقید)
میر انیس کی اقلم سخن 1985
محترم چہرے 1989 (خاکے)
اردو ادب کی تحریکیں 1985
اردو ادب کی مختصر تاریخ 1990
پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ 1992
اردو ادب میں سفر نامہ 1989
اردو ادب میں انشائیہ 1985
اقبال کے کلاسیکی نقوش 1977
اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش 1983
غالب کے نئے خطوط 1982 (طنز و مزاح)
دلاور فگاریاں 1990
قلم کے لوگ1999 (خاکے)
ادیبان رفتہ 2007 (خاکے)
آسمان میں پنگیں 1994 (انشائیہ)
دلی دور نہیں
ادب کہانی 1996ء
ادب کہانی 1997ء
اردو افسانہ: عہد بہ عہد
میر انیس کی قلمرو
وزیر آغا ایک مطالعہ 1983
مولانا صلاح الدین احمد، فن اور شخصیت
حکیم عنایت اللہ سہروردی، حالات و آثار
جدید اردو نظم کے ارباب اربعہ
کچھ وقت کتابوں کے ساتھ
مزید ادبی جائزے
بانو قدسیہ : شخصیت اور فن
مولانا صلاح الدین ایک مطالعہ
اقبال شناسی اور ادبی دنیا 1989
اقبال شناسی اور اوراق 1989
غالب کا جہاں اور 1986
میر انیس کی قلم رو 1989
اردو نظم کے ارباب اربعہ 2007
خطوط کے آئینے میں 2007
مشفق خواجہ ایک کتاب 2008
شام کا سورج 1989
پروفیسر غلام جیلانی اصغر شخصیت اور فن
غلام الثقلین نقوی شخصیت اور فن
فرخندہ لودھی، شخصیت اور فن
ذکر اس پری وش کا 1982 (انشائیہ)
زندہ لوگ 2008 (خاکے)
آخری نظمیں راجہ مہدی علی خاں 1976
بہترین ادب 1968
بہترین ادب 1990
رادھے شیام کے نام 1970
بہترین نظمیں 1976
بہترین نظمیں 1978
جدید اردو شاعری 1980
وزیر آغا کے خطوط انور سدید کے نام 1985

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں