تنقید

فیض احمد فیض کے ہا ں مزاحمتی رویہ : ذوالفقاراحسن

فیض کسی ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔ یہ وہ نام ہے جس نے مزدوروں، کسانوں سے پیار اور انسانیت کے احترام کا درس دیا ہے۔ وہ فرقوں سے بالا تر ہو کر انسانیت کی بات کرنے والے مر د مجاہد تھے۔ وہ کسی مزدور کو پسینے میں شرابور دیکھتے تو ان کی کیفیت اور ہو جاتی۔ جب تک آمر یت کے خلاف،ظلم و جبر اور استحصال و استبداد کے خلاف ایک بھی آواز اٹھے تو سمجھ لیجئے کہ فیض زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ فیض نے حق کا پرچم بلند کیا ہے۔ مزدور طبقے کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے پر اکسایا ہے۔ ایک بات ضرور سمجھ لیجئے کہ جولوگ دلوں میں زندہ ہوں وہ کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ فیض کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
کسی بھی کلام کی معنوی وسعت، گہرائی اور تہ داری کو سمجھنے کے لیے اس کے تخلیقی عمل کی کارگزاری سے واقفیت از بس ضروری خیال کی جاتی ہے یعنی تخلیق کار کے عہد، حالات و واقعات، زمان و مکان، اس کے ارد گرد کا ماحول اور دیگر عوامل سے جانکاری ضروری متصور کی جاتی ہے۔ آگہی کی ان مثالوں سے اردوکی کلاسیکی شاعری بھری پڑی ہے۔ سب سے نمایاں مثال میر ؔ کی ہے جو اپنے خارجی حالات سے گھبرا کر اپنی داخلی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال مرزا اسد اللہ خان غالب کی بھی ہمارے سامنے ہے مگر فیض یہاں بھی منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں وہ اپنی انفرادیت کا احساس کچھ اس طرح سے کراتے ہیں کہ خارجی حالات سے گھبراتے نہیں وہ نہ تو حالات سے راہِ فراراختیار کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی داخلی دنیا میں پناہ لیتے ہیں بلکہ وہ سراپا احتجاج بن کر ابھرتے ہیں۔
ان کے نزدیک طبقاتی نظام، سماجی مسائل کی الم ناکیاں،معاشرتی تضاد سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت ہے اور اس کا خاتمہ معاشی خوشحالی کے لیے انتہائی ضروری گردانتے ہیں۔کارل مارکس کے نظریہ قدرِ زائد کے حامی تھے۔فیض غلامی کی نفسیاتی کشمکش سے بخوبی آگاہ تھے اسی لیے مظلوموں کو آوازحق بلند کرنے کی ہمت بڑھاتے ہیں اور انہیں بولنے پر اکساتے ہیں:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
فیض احمد فیض ۳۱ فروری ۱۱۹۱ء کو کالا قادر (حالیہ فیض نگر) نارووال میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد فیض درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوگئے اور یوں ۶۳۹۱ ء میں ایم اے او کالج امرتسر اور ۰۴۹۱ء ہیلے کالج آف کامرس میں انگریزی کے استاد تعینات ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ۲۴۹۱ ء میں فوج کے محکمہ تعلقات عامہ نے آپ کی خدمات حاصل کر لیں وہاں کیپٹن سے ترقی پاکر لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ۶۴۹۱ء ایک اشاعتی ادارہ پروگرسیو پیپرز لمٹیڈ (PPL)کے میاں افتخار الدین نے روزنامہ ”پاکستان ٹائمز“ جاری کیا تو فیض احمد فیض کو بطور مدیر تعینات کیا گیا یوں فیض شعبہ صحافت سے ایسے وابستہ ہوئے کہ ایک اخبار کے بعد دیگر رسائل و جرائد میں بھی اپنی صحافیانہ خدمات انجام دیتے رہے۔قیام پاکستان کے بعد اسی ادارے کے ایک اور اردو روزنامہ ”امروز“ اور پھر بعد میں انہی کے ایک ہفت روزہ ”لیل و نہار“ میں بھی بطورچیف ایڈیٹر فرائض منبی اداکرتے رہے۔اسی دوران ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر منتخب ہوئے اور مزدوروں کے نمائندے کی حیثیت سے آئی۔ ایل۔ او کے جنیوا اجلاس میں شرکت کی۔ ۹ مارچ ۱۵۹۱ء کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش جسے راولپنڈی ساز ش کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ۵۵۹۱ ء میں رہائی ملی۔(۱)
صدر ایوب نے پی پی ایل کا ادارہ سرکاری تحویل میں لیا تو فیض اس ادارے سے الگ ہوگئے اور کچھ عرصہ عبداللہ ہارون کالج کراچی میں تدریس و تدریس کے شعبہ سے دوبارہ وابستہ ہوئے اس کے بعد کئی سرکاری و نیم سرکاری ثقافتی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں میں بھی شامل رہے۔لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم کرنے میں سجا د ظہیر اور ان کے ساتھیوں کی بھرپور مدد کی اور ایک عرصہ تک اس انجمن کے روح رواں بھی رہے۔ ترقی پسند تحریک اور مارکسی فلسفہ حیات کے علمبردار رہے۔ ۷۷۹۱ ء کو دوبارہ مارشل لاء دور مین بیرون ملک چلے گئے۔ فلسطینی مہاجرین کے مجلہ ”لوٹس“ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۲۸۹۱ء میں وطن واپس آگئے۔ ۴۸۹۱ ء میں لاہور میں انتقال کر گئے۔
فیض احمد فیض کی نظموں پر اگر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ان کے اولین شعری مجموعے ”نقش فریادی“ میں شامل لاتعداد نظمیں ایسی ہیں جو قاری کو اپنے کلاوے میں جکڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور پھر قاری کو ایک ان دیکھے جہان کی سیر بھی کراتی ہیں جہاں قاری پر حیرت کے کئی در کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ فیض کی نظموں کے طلسم میں کھو جاتاہے۔ میں نے ان کا اولین شعری مجموعہ کا جب مطالعہ کیا تو دیگر نظموں کے ساتھ ساتھ کچھ نظمیں ایسی بھی ملیں جنہوں نے مجھے یک لخت کسی پراسرار یت میں مبتلا کر دیا ان نظموں میں سرفہرست ”تنہائی“ ہے جو دراصل ایک خود کلامی کی کیفیت کا بہت ہی عمدہ شاہکار ہے۔یہاں فیض کا فن اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظم ”تنہائی“ انہیں مجید امجد، میرا جی اور ن۔ م راشد کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے۔ اس نظم کی ایک اک لائن بار بار پڑھنے کو جی چاہتاہے۔
پھر کوئی آیا دلِ زار ! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھند لا دئیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا (۲)
فیض کی ابتدائی شاعری میں رومانوی رنگ بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ دیگر ہم عصر شاعروں کے رنگ میں بھی نظمیں کہہ رہے تھے۔ اس حوالے سے صلاح الدین حیدر کہتے ہیں:
”فیض کی ابتدائی دور کی شاعری پر غنائی اور رومانوی جذبات کی لہر کا غلبہ تھا اس دور کی غزلیہ شاعری اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری کے رومانوی مسلک کے زیر اثر تھی فیض ان سے متاثر ہوئے لیکن اسی دور میں انگریزی کے وکتورین اور رومانوی شعراء کے مطالعے نے بھی ان کو اپنا شعری اسلوب بنانے میں مدد دی۔۔“(۳)
ایک ایسی نظم جس نے انہیں شہرت دوام بخشی وہ ”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“ اسنظم کا عنوان ہی قاری کو اتنا بھایا کہ وہ جان و دل سے اس پر فریفتہ ہوگیا اس دور میں شعراء رومانوی نظمیں لکھ لکھ کر پھر اپنی محبوباؤں کے نام تک نظموں میں لے لے کر دادو تحسین سمیٹ رہے تھے اس ماحول میں جب فیض نے کہا کہ ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“ تو ایک چونکا دینے والا منظر تھا۔ جس نے سب کو حیران کر دیا کہ یہ کیا؟ یہی وہ سوچ تھی جس نے فیض کی شہرت کے گراف بلند سے بلند کیا۔ فیض کہتے ہیں:
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجئے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا (۴)
تو یہ وہ چیزتھی جس نے قاری کو ایک بار چونکا دیا تھا ایک ایسا منظر نامہ دکھایا تھا کہ محبت کے علاوہ بھی اور دکھ ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں پہلے ان کا مداوا کرنا چاہیے۔ یہی وہ سوچ تھی جس کی وجہ سے فیض کا ایک گہرا تعلق زمین سے اور معاشرے سے استوار ہوگیا تھا اور یہی وہ تعلق ہے جو فیض کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ فیض کی مقبولیت کا سب سے بڑا وصف ہی یہی ہے کہ انھوں نے غریب و مفلس لاچار انسانیت کی بات کی ہے۔ وہ کمزور ہاریوں، کسانوں، مزدوروں کو وہ حوصلہ دے رہے تھے جو جابر و ظالم حکمرانوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔ فیض کے پہلے شعری مجموعہ ”نقش فریادی“ میں رومانوی انداز ضرور ہے مگر اپنے ہم عصر شعراء سے تھوڑا ہٹا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ رومانوی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی نظموں کی زیریں سطح پر ایک دکھ اور کرب کی کیفیت بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اسی مجموعہ کی ایک اور نظم ”سوچ“ فیض کے ہاں ایک نئی طرز اور ایک نئی جہت مزاحمتی لہجے کو بھی ابھارتی ہے۔ یہاں آکر فیض کی سوچ انفرادیت کی سطح سے اوپر اٹھ کر ایک دم اجتماعیت کی اقلیم میں داخل ہوتی ہوئی صاف دکھائی دیتی ہے۔ اسی نظم کے دو آخری بند ملاحظہ ہوں:
بے فکرے دھن دولت والے
یہ آخر کیوں رہتے ہیں
ان کا سکھ آپس میں بانٹیں
یہ بھی آخر ہم جیسے ہیں
٭
ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
سر پھوٹیں گے خون بہے گا
خون میں غم بھی بہ جائیں گے
ہم نہ رہیں، غم بھی نہ رہے گا
فیض ایک ایسے مسیحا کے روپ میں نمودار ہوئے جنھوں نے پستے ہوئے طبقے کے زخموں پر ہمدردی کے مرہم رکھے۔ مزدوروں، کسانوں اور مفلس و غریب لوگوں کو سینے سے لگایا ان کی آنکھوں سے بہتے ہوئے نہ صرف آنسو پونچھے بلکہ سڑکوں پر جب غریبوں کا لہو بہتا ہوا دیکھتے ہیں تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ان کا خون کھولنے لگتا ہے اس وقت ان کے ہاں مزاحمتی رویہ اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے (۵)
فیض احمد فیض نے اپنی شاعری میں معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف‘ طبقاتی تقسیم‘ سرمایہ دارانہ نظام، مزدور کے جسم سے بہتا ہوا پسینہ‘ تمناؤں کے مقتل‘ غربت اگانے والے کھیت‘ روحوں کی پکار‘ جسموں کی مایوسی‘ پائل کی جھنکار‘ رقص و سرور کی محفلیں‘ سکوں کی کھنکار پر ناچتے ہوئے جسم‘ امیر شہر کی مدہوشی‘ مزدور کی فاقہ مستی‘ ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ ناانصافیوں کا بنظر عمیق جائزہ لیا۔وہ ان لوگوں کو اٹھاجینے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ وہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے دکھ اور کرب کو کم کرنے کے تمنائی تھے۔ فیض نے جبر و ظلم کے آگے ہمیشہ بغاوت کا علم لہرایا ہے۔ اسی پاداش میں انہیں بار بار قید و بند کی صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ جب بھی قید و بند سے رہا ہوئے وہ پہلے سے زیادہ توانا دکھائی دیتے رہے ہیں۔
بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ فیض احمد فیض کے والد گرامی سلطان محمد خان کو سرگودھا میں کچھ زمینیں الاٹ ہوئی تھیں جانے کتنی مدت ان کے پاس رہیں البتہ ۱۳۹۱ء کو جب ان کے والد گرامی کا انتقال ہوا تو ان کے بڑے بھائی طفیل نے تقریباً سبھی جائیداد فروخت کرکے کچھ قرضہ جات اتارے تھے۔ فیض ان دنوں لاہور میں زیر تعلیم تھے۔لہٰذا فیض نے کچھ دور مفلسی کا بھی دیکھا ہے اسی لیے وہ مفلسوں، بیکسوں اور لاچار لوگوں، مزدوروں، کسانوں، ہاریوں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو سینے سے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ فیض کچھ عرصہ سرگودھا کی جیل میں قید و بند کی صعوبتوں کا شکار بھی رہے اس حوالے سے شاکر کنڈان اپنے ایک مضمون ”فیض احمد فیض اور سرگودھا میں لکھتے ہیں:
”فیض کو پہلی بار ۹ مارچ ۱۵۹۱ء کو لاہور سے گرفتار کیا گیا اور جون کے آغاز یعنی تین ماہ تک ان کی خیریت کے بارے کسی کو علم نہیں تھا اور نہ ہی کسی کو پتہ چلا کہ کون سی جیل میں انہیں رکھا گیا ہے…………………… فیض احمد فیض کو جب سرگودھا جیل منتقل کیا گیا تو وہ اکیلے تھے تنہائی اور اکیلی کال کوٹھڑی، سوائے قرآن مجید کے ان کے پاس نہ کوئی اور کتاب تھی نہ قلم، نہ دوات، نہ کاغذ ایسے حالات میں اس شخص کے روز و شب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جس کی زندگی ہی قلم و کاغذ کتاب اور فکر و تحریر ہو‘ فیض کم و بیش ایک ماہ سرگودھا جیل میں رہے۔ ان کے یہ دن ایسے تھے کہ آمد زوروں پر تھی لیکن ان امڈتے شعروں کو محفوظ رکھنے کے لیے کاغذ، قلم موجود نہیں تھا۔ سو کہا جاتا ہے کہ ایسے حالات میں وہ کوٹھڑی کی کچی دیوار پر ناخنوں سے کرید کر شعر لکھتے تھے جس سے ان کی انگلیاں بھی زخم ہوگئیں اور ان سے خون بہنے لگا انہیں ایام میں انھوں نے لکھا:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ ئ زنجیر میں زباں میں نے“(۶)
فیض احمد فیض کو ۹ مارچ ۱۵۹۱ء کو قید ہوئے اور اپریل ۵۵۹۱ میں رہا ہوئے اس طرح ان کی اسیری کے ایام چار سال بنتے ہیں۔ اس عرصہ میں وہ پہلے تین مہینے سرگودھا اور لائل پور کی جیلوں میں قید تنہائی میں رہے۔ان کا جرم صرف اور صرف اتنا تھا کہ انھوں نے جابر و ظالم حکمرانوں کے آگے سرتسلیم خم نہیں کیا تھا بلکہ سر اٹھا کر شان سے ان کی شنہشاہت کا انکار کیا تھا بقول معین نظامی:
صبح نے عالم حیرت میں افق سے یہ سنا
اک دیا بیعت خورشید سے انکاری ہے (۷)
فیض کا شمار ان عہد سازشعرا میں ہوتا ہے جن کے آہنگ کی گونج ان کے ہم عصر شعراء میں بھی واضح سنائی دیتی ہے وہ روایت سے بھاگتے نہیں بلکہ ان کے ہاں روایت کی طرف لوٹ جانے کا رحجان ملتا ہے۔ ان کے استعارے، تشبیہات، علامتیں، مضامین غرض ہر شے روایت کے باطن سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اسی وجہ سے جو شہرت ان کا مقدر بنی وہ کہیں اور ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی وہ خود کہتے ہیں۔
ہم نے طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
حوالہ جات
۱ اردوانسائیکلوپیڈیا،فیروز سنز ۰۶ شاہراہ قائد اعظم لاہور،،طبع چہارم، ۵۰۰۲ء، ص ۳۷۰۱
۲ فیض احمد فیض، ”نسخہ ہائے وفا“، مکتبہ کارواں، کچہری روڈ، لاہور، س۔ن، ص۱۷
۳ صلاح الدین حیدر، ”فیض احمد فیض …… شخصیت و فن“ مقالہ برائے پی ایچ ڈی، تلخیص مشمولہ ” ارتکاز‘ کراچی،اکتوبر ۵۹۹۱ء، ص ۰۳۲
۴ فیض احمد فیض، ”نسخہ ہائے وفا“، مکتبہ کارواں، کچہری روڈ، لاہور، س۔ن، ص۲۶
۵ فیض احمد فیض، ”نسخہ ہائے وفا“، مکتبہ کارواں، کچہری روڈ، لاہور، س۔ن، ص۰۷
۶ شاکر کنڈان،”فیض احمد فیض اور سرگودھا“ مشمولہ ”لوح ارقم“ دارارقم کالج سرگودھا، ص ۶۴
۷ معین نظامی، ”استخارہ (غزلیں)، بک ہوم ۶۴ مزنگ روڈ لاہور، فلیپ

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں