تنقید

سلیم آغا کی نثری نظمیں ۔۔۔۔ ایک جائزہ : محمد عبدالرحمن طاہر

ڈاکٹرسلیم آغا کا اصل نام ’’سلیم آغا قزلباش‘‘ ہے۔آپ کے والد کا نام ڈاکٹر وزیر آغا ہے جو کہ علمی و ادبی حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔سلیم آغا کا اپنے والد ِگرامی کی طرح اردو ادب میں سرگودھا کی ادبی روایت میں ایک اہم نام ہے۔سلیم آغا کو اوّائل میں افسانے پڑھنے کا شوق تھا اور اسی طرح مزاحیہ و طنزیہ تحریریں اور غیر ملکی تراجم کا مطالعہ بھی شروع کر دیا۔سلیم آغا کے ادبی سفر کا آغاز۱۹۷۴ء کے لگ بھگ ہوا۔جب اُن کا تحریر کردہ انشائیہ بعنوان ’’کرسی‘‘ ماہنامہ’’ اوراق ‘‘میں شائع ہوا۔ اس سے قبل وہ ایک انشائیہ ’’ چھتری‘‘ اور ایک طنزیہ مضمون بعنوان ’’شور مچانا‘‘ ۱۹۷۲ء میں لکھ چکے تھے مگر یہ تحریریں دیر سے شائع ہوئیں۔درحقیقت ادب کی جانب سلیم آغا کا میلان خوردو نوعیت کا تھا۔کسی خصوصی تربیت یا تحریک کا نوزائیدہ نہیں تھا۔ان کے ادبی سفر کا پہلا پڑاؤ انشائیہ تھا۔بعد ازاں انھوں نے افسانے ،تراجم،تنقید اور نثری نظم میںطبع آزمائی کی اورصنف ِسخن نثری نظم سے ان کا لگاؤ برقرار رہا تھا۔سلیم آغا کثیر الجہات ادبی شخصیت کے مالک تھے۔وہ بیک وقت افسانہ نگار،انشائیہ نگار اور نظم نگار تھے۔سلیم آغا کے اب تک نثری نظموں کے تین مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔جن میں ’’زخموں کے پرند‘‘ (۱۹۹۷ء)،’’ہے نا عجیب بات‘‘(۲۰۰۰ء) اور ’’ایک آواز‘‘(۲۰۰۸ء) شامل ہیں۔

سلیم آغا کی نثری نظموں کے مطالعہ سے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس شاعر کے پاس ایسا کچھ ہے جو اسے دوسرے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔اِن کی شاعری میں کسی خاص نوعیت کا مربوط فلسفیانہ یا فکری نظام واضح نظر نہیں آتا تاہم وہ ایک ایسی فضا تخلیق کرتے ہیں جس میں خارجی و باطنی عناصر مل کر احساس کی سطح پر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ان کی شاعری کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ وضاحت اور طول بیانی کی بجائے اختصار سے کام لیتے ہیں۔ان کا مدعا قاری کے ذہن میں نقش بھی ہو جاتا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ الفاظ کے بے جا اصراف سے خطابت تو ہو سکتی ہے لیکن شاعری نہیں۔اس لیے وہ اپنی شاعری میں الفاظ سے طلسم پیدا کرتے ہیں۔اس طلسم میںخالی اور ویران مکان،سنسان راستے،ادھوری کہانیاں،تنہائیاں اور آسیب زدگی کے تاثر کو گہرا کرتے ہیں۔ سلیم آغا نثری نظموں میں طلسمی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔جسے مغربی نقاد طلسمی حقیقت نگاری (Magical Realism) کا نام دیتے ہیں۔ اس حوالے سے لاطینی امریکی تخلیق نگاروں جیسے بورخیس،اوکتایوپاز اور سینٹ جان پرس کو بہت اہمیت حاصل ہے۔اسی لیے سلیم آغا کی شاعری خصوصی مطالعہ کی مستحق ہے۔

سلیم آغا کی شاعری کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سلیم آغا نے اپنی نظموں میں نئی زبان اورنئے استعاروں سے اپناایک نیا شعری مزاج تشکیل دیا ہے۔نظم بنیادی طور پر تاثریا جذبے کے تجزیاتی مطالعے کا ایک وسیلہ ہے۔سلیم آغا نے اس وسیلے کو جذبات واحساسات کے اظہار اور تجزیے کے لیے جس کامیابی سے برتا اور اپنی شاعری کو عمومیت عطا کی ہے وہ ان کے ہم عصر شعرا میں بہت کم نظر آتی ہے۔سلیم آغا کو صرف اپنی بصیرت اورفنی خلوص پر ہی اعتماد نہیں بلکہ وہ قاری کی ذہنی تربیت اور عملی بصیرت پر بھی مکمل اعتماد کرتے ہیں۔اس لیے وہ وحدت ویک جائی کے تانے بانے اتنے نازک اوربظاہر نظر نہ آنے والے بناتے ہیں تاکہ قاری کا تخیل خود ان مختلف محسوسات کی ٹکڑیوں کو ساتھ ملا کر رکھے اور کسی خاص نتیجے،خیال یا نظریے کی صورت پہچان لے۔جس کی عمدہ مثال سلیم آغا کی نثری نظمـــ’’صحرا کا طوفان‘‘ہے۔

سلیم آغا کی نثری نظموں کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے یہی بات بنیادی کلیدہے کہ وہ لفظوں کو تصوراتی تاثر سے مرئی اور غیر مرئی کیفیت کے ربط ِباہم کو ابھارنے میں کمال رکھتے ہیں۔وہ خواب اور حقیقت،روح اورجسم،داخل اور خرج کے درمیان ہم آہنگی کے شعری موسیقی سے زیادہ لفظوں کی نغمگی سے کام لیتے ہیں اور یہی نغمگی ان کے ہاں نئے احساس،نئے لہجے،نئے موضوعات،نئی لفظیات اور نئے اظہار کی وجہ بنتی ہے۔

سلیم آغا اشارتی انداز کو شاعری کا حسن تصور کرتے ہیں۔اس اشارتی زبان کے لیے وہ علامت کے ساتھ ساتھ شعر کے روایتی محاسن،تشبیہ اور استعارے کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔اس لیے لفظ کا استعمال ان کے یہاں بڑی فنی چابک دستی کا تقاضا کرتا ہے۔جس کے بغیر بڑے سے بڑا خیال ادھورا رہ جاتا ہے۔سلیم آغا کا کمال یہ ہے کہ وہ تاثرات کے فوری حملوں سے بچنے کی قوت رکھتے ہیں اور یوں ایک اجتماعی چھاپ سے پہلو بچا لیتے ہیں اور دوسری طرف انفرادی خصوصیت کوہی شخصی تاثیر سے علیحدہ کرکے پرکھ سکتے ہیں۔سلیم آغاکے اسلوب کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مختلف تراکیب اور الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔مثلا ً انھوں نے بھیڑ،بکریوں،چڑیوں اور نیلگوںجھیل کے کنارے جیسے الفاظ استعمال کرکے نظم میں خوب صورت لفاظی کا استعمال کیا ہے۔سلیم آغا کے اسلوب میں الفاظ اور علامات کا تعلق مظاہرِ فطرت سے ہے۔جن کی مدد سے وہ اپنے مشاہدات،تجربات اور متنوع کیفیات کو استعارتی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ان کے ہاں ستارہ،انجم اور جنگل کا استعارہ بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔ان کا اسلوب خوب صورت امیجری رکھتا ہے بلکہ بعض جگہوں پر ان کے اسلوب میں ایسے ایسے نرم و ملائم الفاظ موجود ہیںکہ وہ دل کی زمین کو چھو جاتے ہیں۔معاشرتی المیے،انسانی کرب،فطری اور جبلتی تقاضوں کو سلیم آغا نے نئے الفاظ اور پیرائیوں کے ذریعے ایسی خوب صورتی سے بیان کیا ہے کہ تصویر نگاہوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے۔ان کے انداز میں اعتماد،لہجے میںیقین اور اظہار میں زورووسعت پائی جاتی ہے۔ان کے اسلوب ،اجزائے ترکیبی ،اظہارِخیال اور ایک ایک لفظ کی نشت سے انفرادیت ٹپکتی ہے۔

سلیم آغا کے اسلوب میں صاف گوئی اور بے باکی کے عناصر خوب ہیں۔ان کی نظموں میں زمین کی بربادی کا نوحہ بھی پیش کیا گیا ہے۔جدید دور، سائنسی انکشافات کا دور رہا ہے۔جس طرح دنیا میں ہر شعبہ ترقی کی منازل طے کرنے میں سر گرم نظر آتا ہے۔اسی طرح انسانی ذہن کے معیارات بھی بلند ہو رہے ہیں۔بین الاقوامی تناظر اور جدید ٹیکنالوجی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کرب،دکھ، مسائل،مشکلات، بے سکونی،بے چینی اور انتشار کو انھوں نے اپنے اسلوبی تجربات کے ذریعے دور کرنے کی بھر پور کوششیں کی ہیں۔مجموعی طور پر سلیم آغاکی نظموں میں تنہائی،عہد شکنی،زندگی کی بے معنویت،عصرِحاضر کی تشکیل اور ابہام کے رویے کار فر ماہیں۔

سلیم آغا کی نثری نظم کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ ان کے بیان میںصارفی معاشرے متقابل(Counter Narrative)تشکیل دینے کا رجحان ابھرتا ہے۔اس امتیازی بیانیے کو اسطورہ سازی سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ان کی نظموں ’’ساحرہ،گھنٹیاں بجاتے ہیں،شاید،بلیک ہول،مشار،ہزاروں سال بعداور اپا ہج بھکاری‘‘میں اسطورہ سازی سے کام لیا گیا ہے۔سلیم آغا نے اپنی نظموں میں تضاد کی علامتوںمثلاً زندگی اور موت،جزااور سزا،غم اور خوشی، دن اوررات،دھوپ اورچھائوں کو برتا ہے۔ان کی نظموںمیںنہایت سادہ انداز میں مابعد ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے۔

سلیم آغا کی نظموں کا ایک پہلو محاکات سے متعلق ہے۔وہ اپنے عصر میں ماضی کے ایک خصوصی تصور میں داخل ہوتے ہیں اور حال کو اپنے شعورِذات اور ہم عصر معاشرتِ زندگی کی آگہی کے حوالے بناتے ہیں۔وہ حصولِ زرکی ہوس اور لالچی رویوں کو ان کی وجوہات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔انھوں نے عصرِ جدید کی زندگی کے اس اسلوب کی تر دید کی ہے جس نے انفرادی اور معاشرتی خرابیاں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کی شاعری میں رشتے،تنہائی،جدائی اور بے بسی کا احساس اس قدر شدیدہے کہ وہ عصرِحاضر کو ایک محشر کا استعارہ بنا کر ظاہر کرتے ہیں۔نظم’’بدلتے رشتے‘‘عصری تناظر میں لکھی گئی نظم ہے۔سلیم آغا کی نظموں میں جدید زمانے کے رجحانات کی عکاسی کی گئی ہے۔موجودہ صنعتی دور میں بڑھتی ہوئی سہولیات میں گھٹتی ہوئی انسانی اقدار کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔جس کی عمدہ مثال نظم’’چھوڑدو‘‘ ہے۔

سلیم آغااپنی نظموں میں مستقبل کو اہمیت دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔وہ زمانہ حال کے صنعتی اسلوب ِزیست پر بے اعتقادی کا اظہار کر دیتے ہیں۔کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ زمانہ حال نے انسانی عظمت کی بنیاد منفی قوتوں پر رکھی ہے۔اس کے علاوہ وہ کرب اور تنہائی کی صورت ِحال کا نقشہ کھینچتے ہوئے زندگی کی مجبوریوں کا رونا روتے ہیں کہ اس قدر تنہائی کے عالم میں یہ سمجھ نہیں آرہا کس کا سہارا ڈھونڈیں اور کس کی پناہ مانگیں۔اسی منظر نامے میں ان کو عصرِحاضر میں ایسا نظام ،نظریہ اور شخصیت نہیں ملتی جو انسان کو آسودگی کے راستے سے مِلادے۔یہی وجہ ہے کہ روشنی اورامن کی تلاش اس تصادم سے نجات کی خواہش بن کر سامنے آتی ہے جو شاعر کے اضطراب کا محرک ہے۔ان حالات وخیالات کی عکاسی نظم ’’ظالم کہیں کسے!‘‘میں بہت خوب صورتی سے کی گئی ہے۔

مجموعی طور پر سلیم آغاکے تمام شعری مجموعوں کا اسلوب،لہجہ،مزاج،علامتیں،مثالیں اور محاورے فکری اعتبار سے انسانی رشتوں کو زمین اور خدا کے ساتھ بیک استوار کرتے ہیں۔ان کا اسلوب غنائیت سے موسیقیت تک کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ان کا اسلوب تحریری اشکال کے قریب ترہے اسی لیے ان کی شاعری غیر معمولی امیجری کامرقع بن جاتی ہے۔سلیم آغا معاشرے کی تلخ حقیقتوں ،ضمیر فروشوں، زرپرستوں،بے بسی،تقدیر کے آگے بے اختیاری اور عیش پرستی کے خلاف انتہائی سطحوں پر جا کر آواز بلند کرنے کے رویے ظاہر کرتے ہیں۔وہ ظلم و جبر اورمصائب ومشکلات کی چکی میں پستے انسان کے درد کو محسوس کرتے اور کرواتے ہیں۔ان کی نظمیں انسان کو ایک نئے راستے سے بھی متعارف کرواتی ہیں۔گویا منفی عوامل کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ مثبت پہلو بھی ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔سلیم آغا نے نثری نظم کے معیارات کو ملحوظِ خاطر لاتے ہوئے اردو نثری نظم کی روایت میں اپنا حصہ ڈال کر نثری نظم کا وقار بلند کیا ہے۔

(بشکریہ اردو ریسرچ جرنل)

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. گمنام

    نومبر 22, 2020

    Excellent essay about Saleem agha poetry

  2. Junaid

    نومبر 22, 2020

    Nice information

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں