از: ڈاکٹر غافرشہزاد
زعیم رشید کی کتاب’’تروینی تیرے نام‘‘ شایع ہوئی تو اس کی ایک جلد مجھے بھی زعیم رشید نے عنایت کی۔زعیم رشید ایک نوجوان شاعر ہے جسے ہم خالد احمد کے حلقہ میں بیٹھنے والے آخری لوگوں میں شمار کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے اس سے محبت بھی کرتے ہیں۔ دوسرا اہم کام وہ یہ کر رہا ہے کہ ماہنامہ بیاض کے ہر شمارے میں وہ خالد احمد کی نظموں کے انگریزی میں تراجم کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ سے چل رہا ہے۔ زعیم رشید اسے ایک تسلسل سے جاری رکھے ہوئے جس کی وجہ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ادب اور خالد احمد کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ ایک ہی سطح کی موجود ہے۔
31 جولائی 2016ء کو جب معروف شاعر اور سفر نامہ نگار یونس متین نے زعیم رشید کی کتاب’’تروینی تیرے نام‘‘ کی تقریب رونمائی کا اہتمام اپنے آبائی شہر عارف والا میں کیا تو ہمیں بھی دعوت دے ڈالی۔ تقریبِ رونمائی کے علاوہ مشاعرہ بھی تھا۔ لاہور سے میں،نعمان منظور، اعجاز رضوی اور زعیم رشید کی کتاب’’تروینی تیرے نام‘‘ کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں روانہ ہوئے۔ خیال یہی تھا کہ دورانِ سفر شاعری پر ایک نظر مار لوں گا اور اگر ضرورت پڑی تو گفتگو بھی کر لوں گا کیوں کہ ابھی تک تو یونس متین یا زعیم رشید نے اس کے بارے میں ہمیں باضابطہ دعوت نہیں دی تھی۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا تھا کہ صرف مشاعرے میں شرکت کے لیے عارف والا کا تین گھنٹوں کا سفر تو نہیں کیا جا سکتا تھا۔نعمان منظور اور اعجاز رضوی بھی اس کے بارے میں لاعلم تھے کہ تقریب کا فارمیٹ کیا ہو گا۔
دوران سفر اعجاز رضوی نے بتایا کہ کچھ برس پہلے جب ’’فنون‘‘ میں سہ حرفیاں اور ترائلے کے نام سے تین مصرعوں پر مشتمل نظمیں شایع ہو رہی تھیں تو اُس وقت گلزار صاحب نے بھی تین مصرعوں پر مشتمل نظمیں لکھ کر بھیجیں تھیں۔ اُن کی دیکھا دیکھی کچھ اور شعرا نے بھی ایسی نظمیں لکھیں جو ’’فنون‘‘ میں سہ حرفیاں اور کبھی ترائلے کے نام سے شایع ہوتی رہیں۔ ان شعرا میں خالد احمد اور اعجاز رضوی بھی شامل ہو گئے۔ان ہی دنوں میں ایک خط احمد ندیم قاسمی صاحب کو گلزار کی جانب سے موصول ہوا کہ کیوں نہ ایسی سہ مصرعی نظموں کا نام’’تروینی‘‘ رکھ دیا جائے۔اس کے بعد’’فنون‘‘ میں یہ سہ مصرعی نظمیں ’’تروینی‘‘ کے نام سے چھپنے لگیں۔ اردو شاعری کو ایک نئی صنف مل گئی جس پر خصوصی توجہ گلزار نے دی اور ہندستان میں ان کا تروینیوں پر مشتمل پہلا مجموعہ بھی شایع ہو گیا۔ جب ہم عارف والا پہنچے تو زعیم رشید نے بتا دیا کہ جن دنوں وہ لندن میں بسلسلہ تعلیم مقیم تھا، وہاں ساقی فاروقی کی معیت میں ایک دن گلزار صاحب اور ان کی’’تروینی‘‘ سے ملا قات ہو گئی۔ گلزار صاحب نے تروینی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور یوں زعیم رشید کے دل میں بھی تروینیاں لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔
’’تروینی تیرے نام‘‘ جب میںکھول کر پڑنے لگا تو سب سے پہلے زعیم رشید کی والدہ کے لکھے ہوئے فلیپ کی اِن سطروں پر نظر پڑی:
’’میں27 اپریل کی وہ حسین صبح کیسے بھول سکتی ہوں جب ایک ننھے سے بچے کے رونے کی آواز نے ہمیں زندگی کا پتہ دیا۔۔۔ ایک تیسرا احساس۔۔۔ہماری تروینی‘‘۔
یہ تروینی زعیم رشید کی شکل میں اپنے ماں باپ کے گھر پروان چڑھی اور لندن سے ہوتی ہوئی واپس بورے والا اپنے آبائی گھر آ گئی اور اس نے’’تروینی تیرے نام‘‘ کے عنوان سے تروینیوں پر مشتمل ایک کتاب شایع کردی۔ پاکستان سے شایع ہونے والا تروینیوں پر مشتمل یہ پہلا مجموعہ ہے جس کے فلیپ پر گلزار نے بجا طور پر لکھا ہے:
’’تروینی کا یہ پودا لگا کر اب بڑی تسلی ہوتی ہے۔ یہ پھل پھول رہی ہے اور مجھ سے بھی اچھے باغبان ملے ہیں اسے۔ زعیم رشید کی خوب صورت تروینیاں پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ زعیم نے یہ بیل اوپر کی منڈیر تک پہنچا دی‘‘۔
یہ بات تو طے ہے کہ تروینی تین مصرعوں پر مشتمل ایک صنف سخن ہے مگر تین مصرعوں پر مشتمل اور اصناف بھی موجود ہیں جنھیںہائیکو، سہ حرفی،ثلاثی یا ترائلے کہا گیا۔ پنجابی میں ماہیے کے نام سے بھی تین سطروں پر مشتمل ایک صنف ِسخن پہلے سے موجود ہے تو پھر تروینی ان اصناف سے کیسے مختلف ٹھہری، یہ معاملہ توجہ طلب ہے۔ ماہیے اور ہائیکو میں مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں جب کہ سہ حرفی اور ترائلے میں مصرعے برابر وزن میں ہوتے ہیں۔ایسی صورتِ حال میں تروینی کی ہیئت کے بارے میں کچھ ضوابط طے کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ورنہ تو کوئی بھی تین مصرعوں کو جوڑ کر تروینی بنا لے گا اور اس صنف کا انجام بھی وہی ہو گا جو پاکستان میں ہائیکو کے ساتھ ہوا۔ اس حوالے سے جب میں نے زعیم رشید کی تروینیاں پڑھیں تو مجھے ان میں تروینی کی ہئیت کے خدو خال دکھائی دیے۔
تروینی لکھتے ہوئے جو خیال گلزار نے اور زعیم رشید نے رکھا ہے وہ اس کے صفحہ پر تحریر کرنے میں بھی ہے۔ پہلے دومصرعے اوپر نیچے ساتھ ساتھ اور تیسرا مصرعہ تھوڑی جگہ چھوڑ کر نیچے لکھا جاتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے مصرعے کے درمیان میں یہ فاصلہ معنوی اعتبار سے نہیں ہوتا۔ بلکہ پہلا مصرع یوں لگتا ہے جیسے تروینی کا ٹائیٹل ہے، جسے مزید بیان اور واضح کرنے کے لیے اگلے دو مصرعے اس طرح لکھے جاتے ہیں کہ ان کے پڑھنے میں معنوی اعتبار سے ایک تسلسل آ جائے۔ اپنی بات کو سمجھانے کے لیے میں یہاں ایک دو مثالیں سہولت کے لیے درج کر دیتا ہوں:
کتنی شدت ہے اس کے جذبوں میں
جب بھی آتا ہے رُو برو میرے
ہیر وارثؒ کی گنگناتا ہوں
ایک اور تروینی دیکھیے:
اس میں ہو گی ضرور کوئی بات
درد نے پیرہن غزل کا لیا
لوگ، سب جان جائیں گے اک دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دونوں تروینیوں کے پہلے مصرعے کو دیکھیے، اس کی ساخت اور لہجہ معنوی اعتبار سے ایک عنوان جیسا ہے جس کا فوری طور پر اگلے مصرعوں سے براہ راست معنوی تسلسل میں ربط نہیں بنتا مگر اگلے دونوں مصرعے کہ جن کے درمیان میں لکھتے ہوئے فاصلہ دیا گیا ہے، ان کو پڑھتے ہوئے ایک معنوی تسلسل واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی تروینی کی ہیئت کی پہچان بنتی ہے جو زعیم رشید کی اکثر تروینیوں میں موجود ہے۔ اِس اہتمام کو اگر تروینی کے لیے لازم قرار دے دیا جائے تو اس سے شاعری کی باقی تین مصرعوں والی اصناف سے الگ شناخت بن جائے گی۔
ایک اور تروینی دیکھیے:
کمرۂ امتحان میں بیٹھے
ہم کسی اور دھیان میں بیٹھے
اور وہ کالج کا آخری دن تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظی اور معنوی حوالے سے ہیئت کے بارے میں بات کرنے کے بعد، اب ہم اور تفصیل میں جانا چاہتے ہیں۔ زعیم رشید کی ان تروینیوں میں تینوں مصرعوں میں ایک اور اہتمام بھی کافی حد تک نظر آتا ہے جس کا اہتمام شاعر نے شعوری طور پر نہیں کیا، بلکہ تین مصرعوں کی اس ہیئت کے سبب خود ہی اس کا اہتمام ہو گیا ہے، اور تخلیقی سطح پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ نئی صنف کا وجود پہلے آتا ہے اور اس کے قوانین و ضوابط بعد میں تراشے جاتے ہیں، جیسا کہ غزل، مثنوی اور مرثیہ کے حوالے سے ہوا۔ اس حوالے سے زعیم رشید کی یہ تروینیاں دیکھیے:
ایک صدی کا قصہ لے کر بیٹھ گیا
اک لمحہ جو میرے اندر جاگا تھا
ایک جنم کی نیند پہن کر لیٹ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور تروینی دیکھیے:
اپنی ضد پر اڑی رہی وہ بھی
میں بھی سگریٹ کے کش لگاتا رہا
دونوں جلتے رہے محبت میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور تروینی دیکھیے:
عجب مشکل ہے اس کا سامنا کرتا نہیں ہوں میں
وہ مجھ کو دیکھتا رہتا ہے اور حیران ہوتا ہے
میں بے تصویر ہوں، میری شباہت آئینہ کیا دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ پہلی تروینی میں، پہلے مصرع میں’’ایک صدی‘‘دوسرے مصرع میں’’ایک لمحہ‘‘ اور تیسرے مصرع میں’’ایک جنم‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔تینوں کا وقت کے ساتھ مشترکہ تعلق ہے۔تینوں مصرعوں میں وقت کا ذکر کیا گیا ہے۔
۲۔ دوسری تروینی میں پہلے مصرع میں’’وہ بھی‘‘، دوسرے مصرع میں’’میں بھی‘‘ اور تیسرے مصرع میں’’دونوں‘‘ کے استعمال نے تینوں مصرعوں کے اندر باہمی تعلق کی طرف اشارہ کیا ہے۔’’میں‘‘ اور’’وہ‘‘ مل کر’’دونوں‘‘ بن جاتے ہیں، اگر تروینی کی بنیادی تعریف کے تناظر میں اسے دیکھا جائے تو یہ ایک مکمل تروینی ہے۔
۳۔ تیسری تروینی میں،پہلے مصرع میں’’میں‘‘، دوسرے مصرع میں’’وہ‘‘ اور تیسرے مصرع میں’’آئینہ‘‘ کا تذکرہ ہے۔’’ میں‘‘ سے مراد آئینے کے سامنے کھڑا شخص،’’وہ‘‘ سے مراد آئینے کے سامنے کھڑے شخص کا عکس اور’’آئینہ‘‘ کہ جس میں یہ عکس دکھائی دے رہا ہے۔ اس طرح تینوں کے درمیان ایک ربط پیدا ہو جاتا ہے۔
درجِ بالا سطور میں جس ربط یا اہتمام کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، تروینی کو دیگر سہ مصرعی شعری اصناف سے الگ کرتا ہے۔ اگر تو اس کا اہتمام رکھا جائے گا تو تروینی غزل کی طرح ایک مضبوط ہیئت کے سبب لکھنے والے کو آزمایش میں ڈال کر اپنا وجود منواتی رہے گی۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہائیکو کی طرح تنازعات کا شکار ہو کر معدوم ہو جائے گی۔اب اگلا سوال یہی ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیا ہے؟ جواب بہت سادہ ہے کہ غزل کی بحور اور اوزان کا ایک سخت ضابطہ موجود ہے جس کے اندر رہتے ہوئے کئی صدیوں سے غزل لکھی جا رہی ہے۔ ہر غزل گو ان قوانین و ضوابط کو غزل کی صنف کی بنیادی شرائط سمجھ کر قبول کرتا ہے اور اِن کے تابع رہ کرغزل کے اشعارکہتاہے۔
تروینی۔۔۔تین مصرعوں کی ایک نظم ہے جو ماہیے، ہائیکو، ثلاثی اور سہ حرفی سے الگ ہے۔جیومیٹری میںکسی بھی مثلث یا تکون کے تین ضلعے ہوتے ہیں۔ تکون میں وہ خوبی ہے جو مربع یا مخمس میں نہیں اور وہ یہ کہ ایک ضلع، ایک ہی وقت میں دوسرے اور تیسرے ضلع سے جڑا ہوتا ہے۔جب کہ مربع اور مخمس میں ایک ضلع اگر دوسرے سے ملا ہوتا ہے تو دوسرا تیسرے سے، اور یہ تیسرا پہلے سے نہیں ملا ہوتا۔ جب کہ مثلث کے تینوں ضلعے ایک ہی وقت میں آپس میں براہِ راست تعلق رکھتے ہیں۔ اس تثلیث کا انسان، تاریخ اور مذاہب کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ قدیم ترین مذاہب میں ہندومت بھی آتا ہے جس کی بنیاد تین بڑے بھگوانوں پر ہے۔برہما ( پیدا کرنے والا)،وشنو (حفاظت کرنے والا) اورشِو ( تباہ کرنے والا)۔ اسی طرح آج تک جتنی تحقیق ہوئی، جتنا کام ہوا وہ ’’انسان، خدا اور کائنات‘‘کے درمیان رشتے کی تلاش ہے۔ انسان اور اس کے سامنے پھیلی ہوئی کائنات اور یہ سوال کہ انسان اور کائنات کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ کے اندر سے نکلتا ہوا خدا کا وجود۔ یہاں بھی ایک مثلث بنتی ہے۔ یہ تثلیث عیسائی مذہب میں بھی پوری طرح موجود ہے۔ یہ ساری مثالیں دینے کا مطلب ہے کہ تروینی اگر تین مصرعوں پر مشتمل ایک مکمل نظم ہے تو اس کے اسٹرکچر میں اتنی قوت اور اس کی ساخت ایسی فطری ہے کہ اس کے زندہ رہنے کا پورا پورا جواز موجود ہے۔ شاعری میں اس لیے بھی کہ غزل کے ایک شعر کے دو مصرعوں میںبعض اوقات بات پورے تاثر کے ساتھ بیان نہیں ہو پاتی اور اگر اس کو چار مصرعوں تک پھیلا دیا جائے تو ایک مصرعہ اضافی محسوس ہوتا ہے جس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی صورتِ حال میں ثلاثی، سہ حرفی اور ہائیکو کا جواز بنتا ہے مگر ان کی ہیئت چوں کہ واضح نہیں ہے، اس لیے بات کسی بھی انداز میں کسی بھی موضوع پر تین مصرعوں میں کی جا سکتی ہے۔ تروینی کو موضوعاتی سطح پر پابند کرنا تو اس کے امکانات کو محدود کر دے گا اس لیے زیادہ بہتر ہے کہ ہیئت کے اعتبار سے اس پر کچھ بندشیں عاید کی جائیں تا کہ ایک ضابطے کے تحت تروینی کی پرورش ہو سکے۔ یوں نہ ہو کہ تین مصرعے جوڑ کر آسانی سے ایک نظم کہہ دی جائے اور اسے تروینی کا نام دے دیا جائے۔