آج اردو زبان پاکستان اور ہندوستان سے نکل کر دنیا کے نئے خطوں اور آبادیوں کو تسخیر کر نے میں مصروف عمل ہے۔دنیا میں جگہ جگہ اردو کی نئی بستیاں آباد ہیں۔ان تمام خطوں میں برطانیہ ایسا ملک ہے جس کا اردو سے تعلق سب سے قدیم ہے۔اس تعلق کا پس منظر ایسٹ انڈیا کمپنی سے شروع ہوتا ہے جب انگریزوں نے اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے اردوزبان سیکھنا شروع کی۔اردو کی پہلی لغت ترتیب دی۔اردو سیکھنے کا پہلا قاعدہ وجود میں آ یا۔پھرجب وہ ہندوستان پر قابض ہوئے تو انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد اور پادریوں کے مشنری محرکات کے سبب اردو زبان کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
ہندوستانی تارکینِ وطن کے برطانیہ آباد ہونے کا سلسلہ اٹھارویں صدی کے نصف آخر سے شروع ہوا اور پھر آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔ ساٹھ کی دہائی تک ہجرت کا ایک عہد مکمل ہوتا ہے ،جب جنگ عظیم کے نتیجے میں،برطانیہ کو اپنی کمزور ہوتی صنعت کے لیے سستے مزدوروں کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے حکومت پاکستان سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت منگلہ ڈیم کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں تارکینِ وطن مزدور، برطانیہ روانہ کر دیے گئے۔ان مزدوروں نے معمولی اجرت کے عوض، برطانیہ کی معاشی ترقی کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔آج کے برطانیہ میں اردو بولنے والوں کی اکثریت انہی پاکستانیوں اور ان کی نسلوں پر مشتمل ہے ۔برطانیہ میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے جن میں اردو بولنے اور سمجھنے والے دس لاکھ سے زائد افراد بھی شامل ہیں ۔جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی مسلمان کمیونٹی پورے جزائر برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہے اور وہاں کی معاشی،ثقافتی اور سیاسی زندگی کے ہر شعبے میں بھر پور کردار ادا کرتی ہے ۔اس کمیونٹی کے افراد چھوٹے چھوٹے کاروباروں اور عوامی خدمات سے لے کربڑے بڑے ریسٹورنٹس،ذرائع ابلاغ،تدریس،قانون،سیاست،صحت عامہ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اپنے اسلامی اور پاکستانی تشخص کی بنا پر وہاں جانے والی تارکین وطن کی پہلی نسل نے برطانوی معاشرت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھالیکن ان کی دوسری اور تیسری نسل نے پہلی نسل کی نفسیاتی مزاحمت کے باوجود برطانوی اور یورپی معاشرت کا جزو بننے کی کوشش کی ہے۔جس کی وجہ سے اپنی معاشرت سے جڑے رہنے والے لوگ اس خوف کا شکار ہیں ان کے بچے اپنے دین،اپنی روایات ، اقدار اور زبان سے کٹتے چلے جا رہے ہیں۔ان کا یہ خوف بہت حد تک درست بھی ہے ۔اس کے باوجود بہت سے برطانوی مسلمان ، خاص طور پر پاکستانی نژادآج بھی برطانوی معاشرہ سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ نہ ہی ان میں شامل ہوتے ہیں اور نہ ہی برطانوی اقدار وروایات کی پیروی کرتے ہیں۔وہاں مقیم ،تارکین وطن مسلمانوں نے اپناالگ معاشرہ قائم کیا ہوا ہے ۔یہ لوگ اپنے بچوں کی شادیاں بھی عموماً اپنے پاکستانی رشتہ داروں اور آبائی علاقوں میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ان میں سے بیشتر لوگوں نے اپنے آبائی معاشروں اور علاقوں سے مضبوط ذہنی اور سماجی رشتہ برقرار رکھا ہو اہے ۔یہ لوگ اپنے گھروں میں اردو ،پنجابی،پشتو،سندھی ، بلوچی اور میرپوری زبانیں بولتے ہیں۔
اردو برطانیہ میں بولی جانے والی ایک اہم زبان ہے ۔اردو زبان سے جڑے رہنے والے افراد میں ایک خوف یہ پایا جا تا ہے کہ ان کی نئی نسل اپنے مذہب اوراپنی تہذیب کی طرح اپنی زبان( اردو) سے بھی لا تعلق ہوتی جا رہی ہے ۔برطانوی معاشرت کے اثرات،تارکینِ وطن کی نئی نسل پر اس حد تک اثر انداز ہوئے ہیں کہ رنگ اور نسل کے علاوہ وہ کہیں سے بھی پاکستانی یا ہندوستانی نظر نہیں آتے ۔چنانچہ پرانی نسل کا یہ خوف کہ اگلے پچیس یا پچاس سال بعد اردو وہاں سے معدوم ہوجائے گی ، فکر انگیز بات ہے اور اس سے برطانیہ اور یورپ میں اردو کے مستقبل کے متعلق مایوسی کا پیدا ہونا بھی فطری عمل ہے۔
یہاں ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا تارکینِ وطن کی نئی نسل کو اپنے تشخص اور زبان کی قیمت پر برطانیہ میں رہنا ہو گا؟کیا مستقبل میں وہاں تشخص اور زبان دونوں کو برقرار رکھنے کوئی کوئی صورت ہوگی؟ اورکیا یہ لوگ کبھی اپنے آبائی خطوں کی طرف واپس بھی لوٹ کر آئیں گے ؟
تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسانوں نے جتنی بھی بڑی بڑی ہجرتیں کیں،وہ کبھی اپنے آبائی خطوں کو لوٹ کر نہیں گئے، بلکہ نئے خطوں کی بود وباش میں اپنے آپ کو ضم کر لیا ۔ہو سکتا ہے برطانیہ کے تارکینِ وطن بھی کبھی اپنے آبائی معاشروں کو لوٹ کر واپس نہ جاسکیں مگر گلوبلائزیشن کے اس دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دونوں معاشروں کے افراد کو قربت کا عجیب وغریب موقع فراہم کیا ہے ۔ اس قربت کے نفسیاتی اثرات سے انکاربھی نہیں کیا جا سکتا۔یاہو،وائبر،سکائپ،ایمو اور وٹس ایپ جیسے مختلف میسنجرز اور فیس بک اور ٹوئیٹر جیسی سماجی تعلقات کی ویب سائیٹس پر جڑے ہوئے مختلف معاشروں کے افراد بظاہر ایک ہی گھرانے کے افرادمعلوم ہوتے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی نے تہذیبی تفاعل کی ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔اور مختلف معاشروں کی یہ قربت ہماری نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے ۔اب کس طرح ممکن ہے کہ برطانیہ کے برف بستہ ماحول اور اجنبی معاشرے کی مغائرت اورتنہائی سے گھبرائے ہوئے تارکینِ وطن ،پاکستان یا ہندوستان میں اپنے رشتہ داروں ،اہل خانہ اور عزیزوں کی محبت کی گرمی سے متاثر نہ ہوں ۔اس پس منظر میں مختلف کمیونٹیز کے افراد کاایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنا، ماضی میں تو ممکن تھا مگر اب شاید نہ ہو ۔
انٹر نیٹ نے دنیا کو صحیح معنوں میں ایک عالمی گاؤں بنا دیا ہے اور اب فرد کا فرد سے رابطہ دنوں یا گھنٹوں کا نہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ کا ہو گیا ہے ۔رابطوں کا یہ اژدھام غیر محسوس طریقے سے اردو زبان کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے اور اس کے ثمرات سے یقیناً اردو کا دامن مالا مال رہے گا۔
برطانیہ میں سیکڑوں کی تعداد میں شاعر،افسانہ نگار اور صاحب اسلوب نثر نگار موجود ہیں۔یہ تمام لوگ چونکہ اردو کی جنم بھومی سے دور اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس جنگ میں زبان، ان کے تشخص کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔سو وہ اس کے فروغ کے لیے بھی کوشاں نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں بیسیوں ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن کے مقاصد میں ایک مقصداردو زبان وادب کی ترویج وترقی بھی ہوتا ہے ۔یہ تنظیمیں ماہانہ مشاعرے،تنقیدی اجلاس اورکتابوں کی رونمائی کی تقاریب منعقد کرواتی ہیں۔ان تنظیموں میں سے کوئی نہ کوئی ہر سال عالمی سطح کا مشاعرہ منعقد کرواتی ہے یا بڑی ادبی شخصیات کے ساتھ جشن منایا جاتاہے۔ان تقاریب میں پاک وہند کے علاوہ دنیا بھر سے اردو کے ادیب اور شاعر شریک ہوتے ہیں ۔
عجیب اوردلچسپ بات یہ ہے کہ دنیاکے کئی ملکوں کے لوگ برطانیہ اورامریکہ میں آباد ہیں مثلاً،افریقی،،عرب،ترک،ایرانی وغیرہ جو مادی اعتبار سے بھی بہت مستحکم ہیں لیکن ان سب میں اردو پس منظر کے لوگ سب سے زیادہ اپنے تشخص اور لسانی حقوق کے بارے میں فعال اور متحرک نظر آتے ہیں ۔
برطانیہ کے شاعروں کی بات کی جائے تو ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے ۔وہاں کے شعرأ میں بہت اچھے اور برے ہر طرح کے شاعر موجود ہیں ۔وہاں کے زیادہ تر شاعر اور ادیب چونکہ اپنی بلوغت کی عمر برصغیر میں مکمل کرنے کے بعد وہاں گئے تھے، اس لیے ان کی شاعری میں بنیادی رنگ تو برصغیر کا ہی نظرآتا ہے۔۔ یورپی ماحول کے احساس وادراک اور مشاہدے سے ان میں اس مقامیت سے متعلق طرز احساس کے عناصر بھی مجتمع ہو گئے ہیں ۔اس ماحول اور حالات کے مشاہدے سے ان کا وژن بھی وسیع ہوا ہے اور انہیں نئی لفظیات بھی ملی ہیں۔ان شعرا کے ہاں احساسِ اجنبیت،احساسِ تنہائی،ڈیپریشن،ہجرت یا نقل مکانی، بے چہرگی، شناخت کا مسئلہ،وطن کی یاد،موسم کا ذکر،عارضی رفاقتیں،احساس جمال،مزاحمت،انسان دوستی اور کائناتی شعور کے موضوعات کا اظہار انہیں ہماری شاعری کی روایت سے ممتاز کرتا ہے۔ اسی طرح انگریزی الفاظ کے استعمال نے بھی اردو شاعری میں ایک مختلف فضا پیدا کر دی ہے ۔یہ طرز احساس برطانیہ میں کہی جانے والی غزل اور نظم دونوں میں نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے ۔
شعر کے مقابلے میں افسانے میں چونکہ کھل کر اظہار ہوتا ہے، اس لیے برطانیہ میں لکھا جانے والا افسانہ ،وہاں کے ماحول کی ترجمانی میں اہم صنفِ ادب ثابت ہوئی ہے ۔ شاعروں کی طرح وہاں کے افسانہ نگاروں کا ذہنی پس منظر بھی مشرقی ہے اوربیشتر مرد وخواتین افسانہ نگار اس اخلاقیات کے تحت افسانہ لکھتے آئے ہیں جو وہ برصغیر سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ اسی ذہنی پس منظر کی وجہ سے یہ افسانہ نگار مغرب کے ان تاریک پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں جو مغرب کے کلچر اور ان کے ذہنی پس منظر کے درمیان خلیج بناتے ہیں۔
برطانیہ کا افسانہ نگار اپنے ماحول اور معاشرت سے متعلق طر زاحساس کے عناصر اپنی کہانی میں لے آیا ہے اور یہی اس افسانے کی انفرادیت ہے ۔ برطانیہ میں لکھے جانے والے افسانے میں وہاں کی لوکیلٹی اور ماحول ،جانوروں سے انسیت ،گوروں کا نسلی امتیاز،مادر پدر آزاد معاشرت،جنس،ہجرت اور غریب الوطنی کا احساس،مذہب اور مشرقی تہذیب سے وابستگی،شدت پسندی،تہذیبی تصادم،تشخص یا شناخت کا مسئلہ،جڑوں کی تلاش اور مخلوط شادیوں جیسے اہم موضوعات شامل ہے ۔انہی عناصر کی وجہ سے وہاں کا افسانہ پاک وہند کے افسانے سے کچھ مختلف نظر آتا ہے ۔بعض افسانوں میں سفرنامے کا اندازبھی در آیا ہے۔ اسی طرح وہاں ٹسٹ ٹیوب بے بی اور یوتھینزیا(Enthanazia)(ڈاکٹر کی تجویز کردہ موت)کے موضوع پر بھی بعض افسانے لکھے گئے ہیں لیکن تخلیقی سطح پر یہ کوئی بڑا تجربہ نہیں ہے ۔
افسانے کے ساتھ ساتھ وہاں کے ناولوں میں بھی برطانوی معاشرت کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے ۔ اکثر ناولوں کے کرداروں کا ایک معاشرت سے دوسری معاشرت کی طرف سفر جاری رہتا ہے ۔اسی طرح وہاں دیگر اصناف سخن میں بھی بہت سا کام کیا گیا ہے جو برطانیہ میں اردو کے دامن کو وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ،سو برطانیہ میں اردو کے ادیب اور شاعر مسلسل تخلیقی عمل میں مصروف ہیں۔انہیں چونکہ معاشی آسودگی حاصل ہے، اس لیے ان کی کتاب بھی چھپ جاتی ہے اور اب تو سماجی روابط کی ویب سائیٹس کی موجودگی میں ان کی نگارشات اور ان پر ہونے والے تبصرے منٹوں میں دنیا کے کونے کونے تک پھیل جاتے ہیں۔اپنی تخلیقات کی فوری پزیرائی کا عمل تخلیقی طمانیت کی بہت بڑی وجہ ہے اور شاید یہی سبب ہے کہ برطانیہ کا تخلیق کا ر بہت بہتر لکھنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔
برطانیہ میں اردو کا شمار جدید غیر ملکی زبانوں میں ہوتا ہے اور اردو برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا چھٹا اہم ترین مضمون ہے ۔ماضی میں درپیش بعض مشکلات کے باوجود برطانیہ کا معاشرہ اردو کی تدریس کے لیے ہمیشہ بہترین ثابت ہوا ہے ۔اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جب ہندوستان میں ملازمت حاصل کرنے والے سول اور فوجی ملازمین کی تربیت کے لیے سکول کھولے گئے تو وہاں دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کی تدریس کا انتظام بھی کیا گیا ۔اس دور میں انگریز مستشرقین کے علاوہ بعض ہندوستانی اساتذہ اور ادیب بھی اردو کی تدریس میں مصروف رہے ہیں لیکن اردو کی تدریس کی سب سے بڑی ضرورت اس وقت پیش آئی جب ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہزاروں پاکستانیوں نے برطانیہ کا رخ کیا تھا ۔
60 ء کی دہائی میں منگلا ڈیم کے متاثرین کے ساتھ ساتھ کینیا اور یوگینڈا سے بھی ہزاروں ایشیائی برطانیہ پہنچے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھیں اُن ملکوں میں تعصب کا سامناتھا۔چنانچہ۱۹۷۱ء کی مردم شماری میں مسلمانوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب پہنچ چکی تھی۔ا س وقت اردو بولنے والی کمیونٹی کے بچوں کو اردو کی تعلیم کے لیے مشکلات کا سامنا تھا ۔چنانچہ رالف رسل،محمود ہاشمی اور دوسرے مسلمان اکابرین کی کوششوں سے سکولوں میں اردو کی تدریس کا آغاز ہوا۔۔برطانیہ میں اردو کی تدریس کی طرف حکومت کی دلچسپی یورپی یونین کے اس چارٹر کی وجہ سے بھی ہوئی جس کے مطابق یورپی یونین کے ممبر ممالک اپنے شہریوں کو ان کی مادری زبان کی تعلیم دینے کے پابند تھے۔چنانچہ تارکین وطن کے بچوں کے لیے حکومت کی طرف سے بھی سکول کی سطح پر اردو کی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔
برطانیہ میں آج بھی 69 سے زائدلوکل ایجوکیشن اتھارٹیز اردو کی تعلیم کی سہولیات مہیا کئے ہوئے ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں اردو کی تدریس کی اہمیت موجود ہے۔ طلباسکول میں جی سی ایس ای لیول پر اردو کا مضمون پڑھ سکتے ہیں۔اس کے بعد اے لیول کی سطح پر بھی اردو کا مضمون لیا جاسکتا ہے ۔اے لیول میں تارکینِ وطن بچے اردوکا مضمون اس لیے بھی پڑھتے ہیں کہ اس سے انہیں پوائنٹس ملتے ہیں جو یونیورسٹی کی سطح پر اعلیٰ تعلیم میں داخلے کے لیے مدد گار ہوتے ہیں۔زیادہ تر طلبا اردو کے بجائے کسی یورپی زبان کا انتخاب کرتے ہیں۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ فرانسیسی،جرمن یا اسپینش پڑھنے سے انہیں اردو کے مقابلے میں زیادہ معاشی فوائد کی توقع ہوتی ہے ۔
برطانیہ میں سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کی شکل میں ایک ایسا ادارہ موجود ہے جس کی اردو زبان کے لیے خدمات بہت زیادہ ہیں اور اس ادارے سے اردو کے چند بڑے نام بھی وابستہ رہے ہیں،سو جب تک یہ ادارہ قائم رہے گا اردو زبان پڑھی ، سیکھی اور سکھائی جاتی رہے گی۔اسی طرح بعض دوسری یونیورسٹیوں اور کالجز کے لینگوئج سنٹرز میں بھی اردو کی ابتدائی نوعیت کی تدریس کا اہتمام کیا جاتا ہے ،جہاں بہت سے افراد اردو سیکھنے آتے ہیں۔
برطانیہ میں اردو زبان کو فروغ دینے اور تارکینِ وطن کے مسائل اجاگر کرنے میں وہاں کے اردو ذرائع ابلاغ بھی پیش پیش رہے ہیں۔لندن سے آج بھی دو اردو روزنامے اور برطانیہ کے مختلف شہروں سے پچیس سے زائد ہفت روزہ رسائل وجرائد شائع ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بی بی سی اردو سروس ،اردو ریڈیو اور اردو ٹی وی چینلز بھی اس زبان کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
برطانیہ میں اردو کا مستقبل نئی یا آنے والی نسلوں سے وابستہ ہے لیکن ان کے دل میں اپنی زبان کی محبت پیدا کرنے اور انہیں اردو سکھانے کی ذمہ داری پرانی نسل پر ہی عائد ہوتی ہے اور یہ کام شعوری طور پر کسی جامع منصوبہ بندی سے ہی کیا جا سکتا ہے ۔اس منصوبہ بندی کے تحت ان تمام ممکنات اوراقدامات کو بروے کار لایا جانا چاہیے جن کی وجہ نوجوان نسل اپنی زبان،روایات،مذہب اور اقدار سے جڑی رہے کیونکہ برطانیہ میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور وہاں کی معاشرت کی اپنی ایک کشش ہے اور اسی کشش کی بنا پر وہاں پرتارکین وطن کی نوجوان نسل مشرق کی بہت سی اقدار کو فرسودہ اور مغرب کی ہر چیز کواچھا سمجھتی ہے۔ اگر وہاں پید ا ہونے والی تارکین وطن کی آئندہ نسلیں اپنے آپ کو مغربی تہذیب میں ضم کر دیتی ہیں تو، جنسی اور اخلاقی لحاظ سے کھوکھلی تہذیب میں اپنے تشخص کی قیمت پر اس لوکیلٹی کا حصہ بننے والے بھلا کب وہاں کے اول درجے کے شہری قرار پائیں گے۔ انگریزوں کے نسلی تعصب کی گونج آج بھی یورپ کے کسی نہ کسی ملک سے سنائی دیتی رہتی ہے ۔اگر برطانیہ اور یورپ نے کسی دور میں ان لوگوں کو اپنے ممالک سے نکال دیاتو ان نیم مشرقی افراد کے لیے کوئی رستہ واپسی کا بھی محفوظ ہونا چاہیے۔ اس پس منظر میں تارکینِ وطن کی نسلوں کے لیے اپنی زبان اور اپنے مذہب سے جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنے مذہب اور اپنی زبان سے جڑے رہے،جس کے قوی امکانات موجود ہیں تو پھر،برطانیہ سمیت دنیا بھر میں اردو کا مستقبل محفوظ ہے۔اردو بولنے والے جب تک دنیا میں موجود رہیں گے، اردو پھلتی پھولتی رہے گی کیونکہ اس کی پختہ بنیادوں میں ایسا زبردست مسالا ڈالا گیا ہے،جس کے مستری ،ہندؤوں اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ خود انگریز تھے۔ اس کی خبر ہمیں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے آج سے کئی برس پہلے مرزا علی لطف کے تذکرے ’’گلشن ہند‘‘ کے دیباچے میں دی تھی جس میں انہوں نے لکھا تھا:۔
’’ہندو اس کی(اردو کی)ماں ہیں۔مسلمان اس کے باوا ہیں اور انگریز اس کے گاڈ فادر ہیں۔جو لوگ اس کے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں وہ گویا اس نشانی کو مٹانا چاہتے ہیں جو تینوں کے اتحاد کی یاد گار ہے ۔وہ غلطی پر ہیں۔جب تک ہندو اور مسلمان اور انگریز دنیا میں قائم ہیں،کم از کم اس وقت تک یہ زبان ضرور قائم رہے گی۔‘‘