سلسہ جات

کچھ کھٹی میٹھی یادیں(52) : نیلمادرانی


نیلماناہید درانی
برانڈرتھ روڈ عظیم سٹریٹ۔۔۔اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی تاریخی گراونڈ
برانڈرتھ روڈ کا نام کسی زمانے میں۔۔۔۔کیلوں والی سڑک تھا۔شاید تب وھاں کیلوں کے درخت ھوتے ھوں۔۔۔۔مگر اب سڑک کے دونوں طرف مارکیٹیں تھیں۔۔۔۔ھمارا گھر عظیم سڑیٹ کا پہلا گھر تھا۔۔۔جس کے سامنے امین منزل اور بدر منزل تھیں۔۔۔۔یہ گھر کسی ھندو کی ملکیت تھا۔۔۔جسے میری امی کے دادا حکیم محمد ذکریا نے کرایے پر لیا تھا۔۔۔۔
حکیم محمد ذکریا ۔۔۔حمایت اسلام طبیہ کالج کے پرنسپل تھے۔جو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے ملحق تھامگر برانڈرتھ روڈ پر واقع تھا۔۔۔
اس گھر میں حکیم محمد ذکریا نے بالائی منزل پر رھائش اور گراونڈ فلور پر مطب بنا رکھا تھا۔۔۔۔ میری والدہ کے والدین ان کے بچپن میں ھی وفات پا گئے تھے۔۔۔۔اس لیے ان کی پرورش ان کے دادا نے کی تھی۔امی اسلامیہ سکول فار گرلز میں پڑھتی تھیں اور روزانہ صبح اپنے دادا کو اخبار کی سرخیاں سنا کر سکول جایا کرتی تھیں۔اس گھر کی ایک کھڑکی ۔۔۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراونڈ کی طرف کھلتی تھی۔۔۔۔جہاں سے انھوں نے قائد اعظم کو دیکھا تھا۔
قائد اعظم تقریر کر رھے تھے۔جب علامہ مشرقی نے گراونڈ سے ملحقہ مسجد میں اذان دینی شروع کر دی۔قائد اعظم نے اپنی گھڑی میں ٹائم دیکھا اور کہا۔۔۔۔ابھی اذان کا وقت نہیں ھے۔۔۔اور اپنی تقریر جاری رکھی۔جس پر خاکساروں نے ان پر بیلچوں سے حملہ کر دیا۔۔۔۔کالج انتظامیہ نے بہت مشکل سے ان کو بحفاظت گاڑی تک پہنچایا۔
یہ چشم دید واقعہ کئی بار امی نے سنایا تھاجو ان کے بچپن کی یادوں میں محفوظ تھا۔
فضل محمود کو بھی کرکٹ کھیلتے ھوئے امی نے اسی کھڑکی سے دیکھا تھا۔عظیم سڑیٹ کے سامنے والی ۔۔۔ساری گلیاں رام گلیاں تھیں۔۔۔۔بائیں طرف اڈہ کراون بس تھا۔۔۔۔دائیں جانب چوک دالگراں تھا۔۔۔اور سامنے احمدیہ مارکیٹ تھی ۔
اس گلی میں لڑکیوں کے لیےاسلامیہ گرلز ھائی سکول تھاجہاں سے میری امی اور پھر میں نے میڑک پاس کیا تھا۔۔۔
میری امی بھی اسی گھر میں پیدا ھوئی تھیں اور میں اور میرے سب بہن بھائی بھی۔میرے والد اور دادا پاکستان بننے کے بعد امرتسر سے ھجرت کرکے لاھور آئے تھے۔۔۔ان کی پہلی رھائش نسبت روڈ پر تھی۔۔۔
میرے والدین کی شادی کے کچھ عرصہ بعد میرے والدین عظیم سڑیٹ کے اس گھر میں شفٹ ھوگئے اور امی کے والدین کی دہلی کی جائیداد کے عوض اس گھر کا آدھا حصہ امی کو الاٹ ھو گیا۔
عظیم سڑیٹ ایک کشادہ گلی تھی جو بظاھر بند تھی۔اس لیے یہاں ٹریفک یا اجنبی لوگوں کا گزر نہیں ھوتا تھا۔۔۔
سکول کے اوقات میں طالبات، اساتذہ یا طالبات کے والدین آتے تھے۔
گلی کے آخر میں ایک تنگ راستہ جو مسجد میں جانے کے لیے چھوڑا گیا تھا۔۔۔اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراونڈ کی طرف جاتا تھا۔گلی کے سب بچے شام کو اسلامیہ کالج کی گراونڈ میں کھیلنے جاتے۔۔۔واپسیپر مسجد کے تالاب میں تیرتی سرخ رنگ کی مچھلیاں دیکھتے۔
مغرب کی اذان کے بعد کسی کو گھر سے باھر رھنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔
سردی کی راتوں میں ۔۔۔۔منا۔۔ ریوڑیاں بیچنے آتا۔۔۔۔
"گلاباں والیاں ریوڑیاں”
یہ آواز سنتے ھی ھم ریوڑیوں کی فرمائش کرتےتو ھمارے دادا آغا نعمت اللہ جان ھمارے لیے ریوڑیاں خرید لاتے۔۔۔یہ منا بھی گویا اس گلی کا حصہ تھا۔۔۔
کوئی موسم ھو ۔۔۔ یہ اس موسم کی سوغات لیے آواز لگاتا۔۔۔
گرمیوں میں۔۔۔چپنیاں اور پھٹ لے کر آجاتا۔۔۔۔برسات میں۔۔جامن کا چھابا اٹھائے پھرتا۔۔۔سردی کی دوپہر میں اس کی بغل میں تازہ مولیاں ھوتیں۔
۔میرا پرائمری سکول۔۔۔جونیر ماڈل سکول بھی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراونڈ میں تھا۔۔۔۔جن دنوں کالج کی تقریبات ھوتیں۔۔۔تو اس گراونڈ میں بہت بڑی قنات لگائئ جاتی۔۔۔۔جو ھماری گلی کے بچوں کے لیے ایک نیا کھیل ھوتی۔۔۔۔تقاریر اور تالیوں کے باوجود ھم قنات کے گرد بھاگتے رھتے۔۔۔۔ان دنوں بہت مشاھیر اور دانشور وھاں آیا کرتے تھے۔۔۔مگر ھم کسی کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔۔۔
ایک روز اسی طرح کھیلتے ھوئے ھماری نظر ایک کالے رنگ کی کار میں بیٹھے شخص پر پڑی جو جلسہ میں شرکت کے بعد واپس جارہے تھے۔۔۔۔کالج کا سارا عملہ کار کے پاس باادب کھڑا تھا۔۔۔۔ارے یہ تو صدر ایوب ھیں۔۔۔صدر پاکستان۔۔۔۔ھم نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔سارے بچے کار کے قریب کھڑے ھو کر ھاتھ ھلانے لگے۔۔۔
جواب میں صدر پاکستان ایوب خان نے بچوں کی طرف دیکھ کر مسکراتے ھوئے ھاتھ ھلایااور کار کالج کے مین گیٹ سے باھر نکل گئی۔
کبھی کبھی ھم کھیلتے ھوئے۔۔۔کالج کے مین گیٹ سے باھر نکل جاتےجو ریلوے روڈ پر تھا۔۔۔۔جس کے سامنے عرب ھوٹل تھا۔۔۔۔جس کے بائیں ھاتھ پر ماھنامہ ھدایت کا بورڈ لگا تھا۔۔۔۔ماھنامہ ھدایت ھر مہینے ھمارے گھر آتا تھا۔۔۔۔
ھمارے داداچوک برف خانے میں حسینی اخبار فروش سے ھمیں ھر مہینےبچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت اور ھدایت لے کر دیا کرتے تھے۔۔۔
ھدایت کے مدیر نظر زیدی تھے۔۔۔میں اپنی سہیلی شہناز کے ساتھ اپنی لکھی ھوئی کہانی لے کر ان کے پاس گئی۔۔۔۔۔اگلے شمارے میں وہ کہانی چھپ گئی۔۔۔۔جس کو لے کر ھم محلے بھر میں اور سکول میں۔۔۔ادیب مشہور ھوگئے۔۔۔۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی