ھارس اینڈ کیٹل شو۔۔۔۔فوجی بھائیوں سے محبت کا آغاز
لاھور میں فروری کا مہینہ بسنت کی گہما گہمی میں گزرتا۔۔۔۔جب خوبصورت سنہری دھوپ کے ساتھ ٹھنڈی ھوائیں چلتیں۔۔۔۔ امی کہا کرتیں "بسنت پالا اڑنت ” ان دنوں سارا آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے سج جاتا۔۔۔ھر طرف سے بو کاٹا کی آواز کے ساتھ ڈھول کی تھاپ سنائی دیتی۔۔۔پتنگیں لوٹنے والے۔۔۔لمبے بانسوں پر جھاڑیاں باندھ کر کٹی پتنگیں لوٹنے سڑکوں اور گلیوں میں بھاگتے دکھائی دیتے۔۔۔
زندگی ایک کھیل تماشے کی طرح تھی۔۔۔کوئی امیر غریب کی تفریق نہ تھی نہ ھی لوگوں میں اپنے لباس اور قیمتی اشیا کا دکھاوا کرنے کی عادتیں تھیں۔۔۔۔
مارچ کا مہینہ لاھوریوں کے لیے اس لیے اھم تھا۔۔۔کہ میلہ چراغاں لگتا اور دور دراز سے زائرین باغبانپورہ کے علاقے میں مادھو لال حسین کے مزار پر حاضری دیتے۔۔۔
مزار کے ارد گرد میلوں تک مختلف اشیا کی دکانیں لگتیں۔۔۔موت کا کنواں اور لکی ایرانی سرکس ھوتی۔۔۔چراغاں کی رات دھمال ھوتی۔۔۔چادریں چڑھانے والے۔۔۔ٹولیوں کی صورت میں چادر اٹھائے ڈھول بجاتے ھوئے گلیوں بازاروں سے گزرتے۔۔۔۔لاھور میں سکولوں اور دفتروں میں میلہ چراغاں کی مقامی تعطیل بھی ھوتی۔۔۔۔
اسی دوران لاھور کے فورٹرس سٹیڈیم میں ۔۔۔۔ھارس اینڈ کیٹل شو ھوتا جو کئی دن جاری رھتا۔۔۔اس کو میلہ مویشیاں بھی کہا جاتا تھا۔۔۔۔۔فورٹرس سٹیڈیم کے ارد گرد بھی مقامی مصنوعات کی دکانیں لگائی جاتیں۔۔۔۔ملک بھر سے خوبصورت مویشی جن میں اعلی نسل کے گھوڑے، گائیں بھینسیں اور کئی اقسام کے پالتو جانور شامل ھوتے۔۔۔
اس میلہ کو دیکھنے کے لیے۔۔۔مختلف ممالک کے سربراھان کو بھی دعوت دی جاتی۔۔۔اور ان کو تحائف کے طور پر یہ مویشی بھی دیے جاتے۔۔۔۔
میلے کا ایک دن سکول کے بچوں کے لیے ھوتا تھا۔۔۔۔
ھمارے سکول کے باھر صبح سویرے دو فوجی بسیں آجاتیں اور ھم سب خوشی خوشی اپنی اساتذہ کے ساتھ میلہ مویشیاں دیکھنے چلے جاتے۔۔۔۔
فوج کے مختلف دستوں کی پریڈ اور سلامی بھی ھوتی اور جہازوں کے کرتب بھی دیکھنے کو ملتے۔۔۔۔یہ سب کچھ ھمارے لیے بہت حیران کن اور معلوماتی ھوتا۔۔۔۔
ایک بار میلہ مویشیاں میں گئے۔۔۔اختتام پر فوجی بسوں کے قریب پہنچے تو پتہ چلا۔۔۔30 بچیاں لاپتہ ھیں۔۔۔ھماری اساتذہ پریشانی کے عالم میں ان کو ڈھوںڈ رھی تھیں۔۔۔۔
پروگرام کے اختتام پروہ نجانے کیسے بچھڑ گئیں۔۔۔اور بس تک نہ پہنچ سکیں۔۔۔۔۔موبائل فون کا زمانہ ھوتا تو رابطہ ھو جاتا۔۔۔۔
مسز برکی نے باقی سب کو ٹرک میں بیٹھنے کا کہا۔۔۔اور مجھے ساتھ لے کر ایک قریبی دفتر میں گئیں۔۔۔جس کے باھر۔۔ایم پی۔۔۔لکھا تھا۔۔۔یہ ملٹری پولیس کا دفتر تھا۔۔۔۔۔وھاں موجود باوردی فوجی بھائیوں نے ھماری پریشانی سن کر ھمیں بیٹھنے کا کہا اور پھر وائرلیس کے ذریعے ان بچیوں بارے پیغام دیا۔۔ اور ھمیں حوصلہ دیا کہ پریشان نہ ھوں۔۔۔۔ابھی دس منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ۔۔۔اطلاع مل گئی۔۔۔وہ بچیاں بہت زیادہ رش ھونے کی وجہ سے اپنی گائیڈ سے بچھڑ گئی تھیں اور کسی دوسرے سکول کی بس میں بیٹھ گئی تھیں۔۔
ملڑی پولیس کے جوانوں نے ھمیں ان کی بس تک پہنچایا۔۔۔اور ان کو گنتی کر کے اپنے سکول والی بس میں بٹھایا گیا۔۔۔مسز برکی جو اس قافلہ کی انچارج تھیں ان کی جان میں جان آئئ اور سب خیریت سے اپنے اپنے گھر پہنچ گئیں۔۔۔۔
یہ واقعہ میری زندگی میں پاک فوج کے لیے محبت کا آغاز تھا۔۔۔۔ان دنوں سکول میں بہت ساری اون بھی آیا کرتی تھی۔۔۔۔جس کو بڑی کلاسوں کی لڑکیوں کو تقسیم کیا جاتا۔۔۔اور وہ اون سلائیوں سے فوجی بھائیوں کے لیے جرابیں بنا کرتیں۔۔۔۔
یہ دیکھ کر ھم نے بھی اون سے الٹی سیدھی سلائی کرنا سیکھ لیا ۔۔۔اور مسز برکی سے اون لے کر اپنے فوجی بھائیوں کے لیے جرابیں بنانے لگے۔۔۔
نیلما ناھید درانی