سلسہ جات

کُچھ کھٹی میٹھی یادیں(50) : نیلمادرانی


نیلما ناہید درانی
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا۔۔۔۔
لاہور کے عرس اور میلے
بچپن سے ھی شاعری خون کی طرح رگ و پے میں رچی تھی۔۔۔۔اردو کے ساتھ ساتھ فارسی شاعری بھی کچھ کچھ سمجھ آ جاتی تھی۔۔۔
شاہ است حسین،بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یذید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین
حضرت معین الدین چشتی اجمیری کی یہ رباعی تو جب بولنا سیکھا۔۔۔ یاد کروا دی گئی۔۔۔۔ جب پڑھنا سیکھا۔۔۔ تو حضرت معین الدین چشتی اجمیری کا ایک اور شعر ازبر ھو گیا۔۔۔۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رھنما
یہ شعر داتا کی نگری کے داتا۔۔۔۔ حضرت علی بن عثمان ھجویری کی شان میں حضرت معین الدین چشتی نے لکھا تھا۔۔۔جب وہ ان کے مزار پر چلہ کشی کر رھے تھے۔۔۔۔علی ھجویری کا سلسلہ نسب حضرت علی کے بڑے فرزند حضرت امام حسن سے ملتا ھے۔۔۔۔ وہ سنی العقیدہ مسلمان تھے۔۔ تبلیغ دین کے لیے غزنی سے لاھور تشریف لائے۔۔۔ان کی بہت سی تصانیف ھیں۔۔۔جن میں سے سب سے زیادہ مقبول ’’کشف المحجوب‘‘ ھے۔
میرے ذھن میں کئی بار یہ سوال ابھرتا کہ انھیں داتا گنج بخش کیوں کہا جاتا ھے۔۔۔؟
لیکن اس سوال کا جواب مجھے اس وقت ملا جب میری پوسٹنگ انچارج لیڈیز فورس سٹی کوتوالی کے طور پر ھوئی۔۔۔۔ یہاں زیادہ تعداد پرانی ادھیڑ عمر کانسٹیبلز کی تھی جو پاکستان بننے کے فورا بعد بھرتی ھوئی تھیں۔۔۔ان میں کچھ ھیڈ کانسٹیبل بھی تھیں۔۔۔۔ان کو ھمارا ان پر افسر تعینات ھونا بالکل پسند نہیں آیا۔۔۔لیکن جب ھم نے ۔۔۔ان کی عمر کی وجہ سے انھیں باجی کہہ کر بلانا شروع کیا۔۔۔تو آھستہ آھستہ ان کا رویہ ھمارے ساتھ بہتر ھو گیا۔۔۔
ان لوگوں میں سے اکثر کی ڈیوٹی داتا صاحب کے دربار پر ھوتی تھیاور اگر ان میں سے کسی کو تبدیل کیا جاتا تو وہ بہت احتجاج کرتی۔۔۔آخر اس ڈیوٹی میں ان کی دلچسپی کا راز سامنے آیا۔۔۔۔
کہ داتا دربار پر ڈیوٹی کے دوران وہ شام کو گھر جاتے ھوئے لنگر سے کھانا گھر لے جاتی تھیں۔جس سے نہ صرف ان کی بچت ھوتی تھی۔۔۔ بلکہ وہ سارا دن کی تھکن کے بعد گھر جا کر اپنے بچوں کے لیے کھانا پکانے کی مشقت سے بچ جاتی تھیں۔۔۔
ایک روز انھوں نے بتایا کہ ان کی تنخواہ تو بچوں کی فیسوں پر خرچ ھو جاتی ہے۔۔۔۔ ان کے پہننے کے کپڑے اور جوتے تو محکمہ پولیس۔۔۔ یونیفارم کی صورت میں دے دیتا ھے۔۔۔ بچوں کے کپڑے اور سردی کی رضائیوں کے لیے داتا دربار سے کپڑے بھی مل جاتے ھیں۔۔۔۔جو محکمہ اوقاف کے لوگ دربار پر چڑھاوے کے طور پر چڑھنے والی چادروں میں سے انھیں دے دیتے ھیں۔۔۔۔
داتا دربار کے ارد گرد سڑکوں پر سونے والے دوسرے شہروں سے مزدوری کے لیے لاھور آنے والے مزدور بھی اسی دربار کے لنگر سے کھانا کھاتے ھیں۔۔۔۔
لاھور شہر مزاروں اور میلوں کا شہر ھے۔۔۔ جہاں سال بھر کوئی نہ کوئی میلہ یا عرس جاری رھتا ھے۔۔۔۔ایک میلہ جسے قدم قدم کا میلہ کہا جاتا تھا۔۔۔ سارا سال لاھور کے کسی نہ کسی علاقے میں لگا رھتا۔۔۔ جن میں میلہ چراغاں جو شاہ حسین کے عرس کے موقع ہر لگتا ہے سب سے زیادہ مشہور ہے۔۔۔۔اس کے باھر باغبانپورہ کے علاقے میں۔۔۔ موت کا کنواں اور لکی ایرانی سرکس بھی لگا کرتی تھی۔۔۔ کئی گلوکار اور قوال بھی اپنے فن کا مظاھرہ کرتے۔۔۔
رائٹرز گلڈ کی طرف سے لاھور کے شاعروں اور ادیبوں کا ایک وفد اس عرس کے موقع پر دربار پر چادر چڑھانے جاتا۔۔۔۔ پنجابی ادبی سنگت کی طرف سے بھی شاہ حسین کے مزار پر چادر چڑھائی جاتی۔۔۔
ان عظیم ھستیوں کو فرقوں کی عینک سے دیکھنے کی بجائے۔۔۔ان کی ادبی خدمات کو سمجھنے کی ضرورت ھے۔۔۔۔
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
حامد علی بیلا کی آواز میں شاہ حسین کی کافیاں سن کر ھر صاحب دل تڑپ اٹھتا ہے۔۔۔ ان کے علاوہ شاہ جمال، شاہ کمال۔ پیر مکی، بی بی پاکدامن، گھوڑے شاہ، حیدر سائیں، شاہ عنایت ، صابر شاہ ولی اور بہت سے دربار لاھور کے مختلف علاقوں میں موجود ھیں۔۔۔۔جہاں عرس اور میلے لگتے ھیں۔۔
شاہ عنایت۔۔۔ بابا بلھے شاہ کے مرشد تھے۔۔۔۔ جن کو منانے کے لیے انھوں نے گھنگھرو باندھ رقص کیا تھا۔۔۔
تیرے عشق نچایا۔۔۔۔ کر کے تھیا تھیا
داتا دربار کو ان تمام مزاروں میں مرکزی حیثیت حاصل ھے۔۔۔۔ اس مزار کی پرانی عمارت کے ارد گرد برامدے اور دالان رنجیت سنگھ کی اہلیہ رانی موراں نے بنوائے تھے۔۔۔۔ اس دربار پر سارا سال کروڑوں مالیت کے چڑھاوے چڑھتے ھیں۔۔۔لنگر سارا سال دن رات جاری رھتا ہے۔۔۔۔۔
جب ھم ایران گئے توھمیں بتایا گیا۔۔ مشہد مقدس میں امام رضا کے روضے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔۔۔ اور امام رضا کی بیکریاں سارے ایران میں موجود ھیں۔۔۔امام رضا کے باغات کے پھل سب سے زیادہ لذیز اور خوشبودار ھوتے ھیں۔۔
اس روضہ مبارک پر چڑھنے والے تبرکات کی آمدنی سے یہ بیکریاں بنائی گئی ھیں۔۔۔۔اور باغات لگائے گئے ھیں۔۔۔۔ جس سے اتنی زیادہ آمدنی ھوتی ھے۔۔۔کہ کبھی کبھار ایران کی حکومت بھی امام رضا سے قرض لیتی ھے۔۔۔۔
ھمارے درباروں کی آمدنی کہاں جاتی ھے ؟ ۔ یا اس کا کیا مصرف ھے۔۔؟
کیا ھم اپنے مختلف شہروں میں موجود مزاروں کی آمدنی سےایران جیسا کوئی نظام نہیں بنا سکتے ؟

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی