از : نیلماناھیددرانی
میں پاکستان ٹیلی ویژن لاھور سنٹر کی لابی میں کھڑی تھی۔۔۔۔دلدار پرویز بھٹی مین دروازے سے داخل ھوئے۔۔۔۔ میرے قریب آ کر بولے۔۔”۔ریگل چوک مال روڈ پر باوردی پولیس والیاں کھڑی چالان کررھی ھیں۔۔۔۔آو چل کر انھیں چھیڑتے
ھیں۔۔۔۔”
میں ان دنوں پی ٹی وی پر اناونسر تھی۔ دلدار پرویز بھٹی اپنے مشہور و مقبول ترین پروگرام ” ٹاکرہ ” کے کمپئیر تھے۔۔۔۔وہ ھروقت شرارت کے موڈ میں رھتے۔۔۔ھنستے ھنساتے۔۔۔ کسی نے انھیں کبھی اداس یا پریشان نہیں دیکھا تھا۔۔۔
جبکہ میں نے ان کو روتے ھوئے بھی دیکھا۔۔۔۔ جب روبینہ الخماش (بندیا ) نے ان سے شادی سے انکار کیا تھا۔۔۔اس رات وہ ھمارے گھر آ کر دیر تک روتے رھے تھے۔۔۔
روبینہ الخماش اور ان کی دوستی کے سارے ٹی وی اسٹیشن میں چرچے تھے۔ وہ ھر وقت اکھٹے دکھائی دیتے۔۔۔ بندیا سے میری بھی دوستی تھی۔
دلدار پرویز بھٹی کا اصرار تھا کہ وہ اپنی دلہن کو شادی کے بعد گوجرانوالہ اپنی والدہ کے ساتھ رکھیں گےجبکہ بندیا کو فلمی دنیا میں جا کر ھیروئین بننے کا شوق تھا۔اگر دلدار بھٹی گوجرانوالہ کی شرط نہ رکھتے تو ان کی شادی ھو جاتی ۔ حالانکہ بعد میں عقیدہ سے شادی کے بعد انھوں نے ھمیشہ اسے لاھور میں رکھا۔
بہر حال اس دن وہ شرارت کے موڈ میں تھے۔ میں نے بھی حامی بھر لی اور ان کے 50 سی سی موٹر سائیکل پربیٹھ گئی۔۔۔۔۔ھم نے ریگل چوک کے تین چار چکر لگائے۔ دلدار بھٹی ھر بار پولیس آفیسرز کے پاس سےگزرتے اور انھیں کہتے۔۔۔”ساڈا چالان کرو "
جس پر پولیس والے ھنسنے لگتے۔ جب ھم واپس ٹیلی ویژن اسٹیشن پہنچے تو زاھد عزیر پروڈیوسر۔۔۔۔ جو ٹی وی ڈائرکٹر فضل کمال کے بھائی اور انسپکٹر نغمانہ زاھد کے کزن تھے، نے کہا اگر آپ دوبارہ ریگل چوک سے گزرے تو آپ کا سچ مچ چالان ھو جائے گا۔ یہ سن کر دلدار بھٹی نے کہا پھر تو جانا چاہئے۔۔۔۔لیکن ٹرانسمیشن شروع ھونے والی تھی اور میں نے اناونسمنٹ کی تیاری کرنی تھی۔
یہ 1976 کی بات ھےجب پنجاب پولیس میں خواتین آفیسرز کا پہلا بیج آیا تھا، جو ایک انسپکٹر اور چار سب انسپکٹرز پر مشتمل تھا۔
نغمانہ زاھد انسپکٹر۔ خالدہ خورشید، روحی تاجک ، نبیلہ رانا اور شروین سب انسپکٹرز تھیں۔
ان کو سہالہ پولیس ٹریننگ سنٹر سے ٹریننگ کے بعد لاھور ٹریفک پولیس میں تعینات کیا گیا تھا۔
لاھور میں مختلف مقامات پر "کیوسک ” بنائے گئے تھے۔۔۔۔جہاں ان آفیسرز کو انچارج لگایا گیا تھا۔
ریگل چوک ،چڑیا گھر ، لاھور کالج ، پنجاب یونیورسٹی اور ریلوے اسٹیشن کے باھر یہ کیوسک موجود تھے۔۔۔۔
اس بیج کے چھ ماہ بعد دو خواتین آفیسرز کا اور اضافہ ھوا۔۔۔۔فرخندہ اقبال انسپکٹر اور پروین سب انسپکٹر۔۔۔۔
ایک برس کے بعد اخبارات میں خواتین افسران کی بھرتی کے لیے اشتہارات شائع ھوئے۔
ھم پروڈیوسر نصرت ٹھاکر کے کمرے میں بیٹھے تھے۔۔۔۔صحافی، ادیب، ناول نگار ھمراز احسن بھی وھاں تھے۔انھوں نے کہا
” آپ پولیس جوائن کر لیں۔” میرے شوھر نے اسی وقت درخواست لکھ کر ان کو دے دی ، جو انھوں نے آئی جی پنجاب کے پی آر او کے آفس میں جمع کروا دی۔
کچھ دنوں بعد مجھے تحریری ٹسٹ کے لیے بلاوا آگیا۔۔۔۔تحریری ٹسٹ دینے پہنچی تو بہت سی خواتین موجود تھیں۔جو باقاعدہ تیاری کے ساتھ آئی تھیں۔۔۔۔
میرے زھن میں پولیس کے متعلق کوئی تصور نہیں تھا۔ نہ ھی میں نے کوئی معلومات یا ٹسٹ کی تیاری کی تھی۔ بہر حال جو سوالنامہ ملا اس کو حل کر کے گھر آگئی۔۔۔۔
کچھ دنوں بعد ایک اور خط ملا۔ یہ انٹرویو کے لیے تھا۔۔۔۔۔
انٹرویو کے لیے سول سیکٹریٹ میں واقع انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کے دفتر گئی۔اس بار خواتین کی تعداد کم تھی۔۔۔لیکن سب بہت پر اعتماد اور خوش دکھائی دے رھی تھیں۔۔۔۔۔انھوں نے مجھ سے پو چھا آپ نے کس رینک کے لیے انٹرویو دینا ھے۔۔۔۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا۔۔۔اس لیے خاموش رھی۔۔۔۔اور ان کی باتیں سنتی رھی۔۔۔۔
میرے ذھن میں پولیس افسران کا تصوربہت خوفناک ۔ بد صورت اور بھونڈا تھا۔ میں نہیں سمجھتی تھی کہ میں اس محکمے میں رہ سکوں گی۔۔۔۔۔۔۔
انٹرویو کے لیے میرا نام پکارا گیا۔۔۔۔ کمرے میں داخل ھوئی سامنے ایک نہایت وجیہہ انسان خوبصورت یونیفارم میں ملبوس میز کے دوسری طرف بیٹھا تھا۔ ان کا نام دلشاد نجم الدین تھا۔۔ان کے دائیں جانب ایک نفیس اور دھان پان سا خوش شکل نوجوان جو اپنے لباس اور بالوں سے کوئی دانشور دکھائی دے رھا تھا کرسی نشین تھا۔۔۔۔ان کا نام سعادت اللہ خان تھا ( جو مجھے بعد میں معلوم ھوا )
دلشاد نجم الدین نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا
آپ پولیس کیوں جوائن کرنا چاھتی ھیں؟ ۔
پہلا سوال ھوا۔۔۔۔جی چاھا کہہ دوں میں تو نہیں چاھتی۔ پھر ان کی طرف دیکھا۔۔۔۔
آپ کے کندھوں پر سجے پھولوں کے لیے”
دلشاد نجم الدین مسکرائے۔۔ پھر کندھے اچکا کر بولے۔۔۔
” مجھے تو یہ اٹھارہ سال بعد ملے ھیں "
” اگلے اٹھارہ سال بعد ادھر بھی ھو سکتے ھیں "
میں نے اپنے کندھوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔
نیشنل ھاکی ٹیم کے کسی کھلاڑی کا نام بتائیں؟”
"میں نہیں جانتی۔۔۔ کرکٹ کے بارے میں پوچھ لیں ” ( ٹی وی پر کرکٹ ٹرانسمیشن کی اناونسمنٹ کرکر کے کچھ لو گوں کے نام یاد ھو گئے تھے )
” پاکستانی ٹیم کے کسی کھلاڑی کا نام بتائیں؟ "
” عمران خان ، ماجد جہانگیر، آصف اقبال "
آپ نے فرسٹ ڈویژن ایم اے کیا ھے۔۔۔آپ کچھ کرتی ھیں؟
"میں پی ٹی وی پر اناونسرھوں۔۔۔اوراخباروں میں لکھتی ھوں۔”
” آپ ٹی وی پر کام جاری رکھیں۔۔۔اخباروں میں بھی لکھیں۔۔۔مگر پولیس کے خلاف نہ لکھنا
اب آپ جا سکتی ھیں۔”
انٹرویو ختم ھو چکا تھا۔ میں حیران سی واپس چلی آئی۔ یہ کیسا انٹرویو تھا۔ جس میں صرف تین سوال کیے گئے تھے۔۔۔۔
کچھ دن بعد ایک لیٹر ملا۔۔۔۔کہ فائنل انٹرویو کے لیے۔آئی جی پنجاب کے آفس جانا ھے۔۔۔۔
اس مرتبہ آئی جی آفس میں میرے سمیت کل بارہ خواتین تھیں۔۔۔۔
دلشاد نجم الدین ھمیں۔انسپکٹر جنرل پنجاب عطا حسین کے کمرے میں لے گئے۔
ان کو بتایا کہ ھم نے دو انسپکٹرز اور دس سب انسپکٹرز سیلیکٹ کی ھیں۔۔۔۔
انسپکٹرز کے لیے انھوں نے میرا اور نزھت سلطانہ مرزا کا نام لیا۔۔۔ سب انسپکٹرز میں مقدس عاصمی خان، تبسم ، منصورہ ، شاھدہ کوثر ، زاھدہ کوثر ،زاھدہ پروین ، نصرت مہدی۔، شاھین ، فلورنس پال اور طاھرہ شامل تھیں۔
آئی جی عطا حسین نے سب کو مبارکباد دی۔۔۔
دلشاد نجم الدین نے میرے بارے میں بتایا کہ یہ ٹیلی ویژن اور اخبارات کے لیے بھی کام کرتی ھیں۔۔۔۔
آئی جی نے کہا اگر شام کو ٹی وی پر جاتی ھیں تو جاری رکھیں۔۔۔اور لکھنا لکھانا بھی۔۔مگر پولیس کے خلاف نا لکھیں۔۔۔۔۔۔
جب ھم کمرے سے باھر نکلے تو سب خواتین نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔۔۔۔۔مگر میری حیرت برقرار تھی۔۔۔کیونکہ مجھے انسپکٹر اور سب انسپکٹر کا فرق معلوم نہ تھا۔۔۔۔۔
(جاری ھے)
نیلما ناھید درانی