سلسہ جات

کُچھ کھٹی میٹھی یادیں (۳۳)


از: نیلما ناہید درانی
جب نہر کنارے شام ڈھلی۔۔۔۔اور انتظار
      قربان لائنز کینٹ اور گلبرگ کے درمیان۔۔۔۔شیرپاو پل اور مال روڈ کے میاں میر پل کے درمیان واقع ہے۔۔۔۔یہاں ٹیلی کمیونیکیشن ، ٹریفک ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، غازی کمپنی ، اصطبل ، مسجد، ھسپتال اور کئی دفاتر کے علاوہ سرکاری رھائش گاہیں بھی تھیں۔۔۔۔
غازی کمپنی۔۔۔۔پولیس لائنز ھیڈکوارٹرز کے ماتحت تھی۔۔۔یہاں پولیس کانسٹیبلز کی دس پلاٹون تھیں۔۔۔۔ایک پلاٹون میں تیس کانسٹیبلز تھے۔۔۔جن کا انچارج ایک ھیڈ کانسٹیبل اور ایک اے ایس آئی ھوتا تھا۔۔۔۔
ایک انسپکٹر اور لائنز آفیسر بھی موجود تھا۔۔۔۔۔یہاں بیرکوں کے علاوہ ۔۔۔میس۔۔۔اور دفاتر بھی تھے۔۔۔۔
قربان لائنز میں ھریالی بہت تھی۔۔۔بڑے بڑے گھنے درخت اور پھولوں سے بھری کیاریاں۔۔۔
مجھے یہ جگہ بہت اچھی لگی۔۔۔۔
میں نے ایک گھنے درخت پر رسہ والی پینگ لگوا دی۔۔۔
میرے بچے سکول سے واپسی پر یہاں آجاتے۔۔۔اور پینگ جھولتے رھتے
ڈیوٹی لگانا اور بھیجنا۔۔۔۔انسپکٹر اور لائنز آفیسر کے ذمہ تھا۔۔۔ڈیوٹی کے لیے احکامات ۔۔۔۔پولیس لائنز ھیڈ کوارٹر سے موصول ھوتے تھے۔۔۔۔
اکثر مجھے رات کو لائین آفیسر کا فون آتا۔۔۔۔کہ کچھ ڈیوٹی سےغیر حاضر کانسٹیبل واپس آئے ہیں۔۔۔ان کی واپسی کر لی جائے۔۔۔
پہلے کچھ دن تو میں اس کو اجازت دیتی رھی۔۔۔۔۔لیکن جب مجھ محسوس ھوا کہ یہ روزانہ کا معمول ہے تو میں نے اس کو منع کردیا۔۔۔۔اور کہا کہ غیر حاضر ھونے والوں کو میرے دفتر میں پیش کیا جائے۔۔۔۔
جب غیر حاضر کانسٹیبلز میرے دفتر میں پیش ھوئے تو پتہ چلا کہ چھٹی نا ملنے کی وجہ سے وہ غیر حاضر ھوتے ہیں۔۔۔۔میں نے باری باری۔۔۔ایک پوری پلاٹون کو چھٹی دینی شروع کر دی۔۔۔۔
جس سے دس دن کے بعد ایک پلا ٹون کے تیس کانسٹیبلز چھٹی کر سکتے تھے۔۔۔۔روزانہ کے حساب سے بھی ہر پلاٹون میں سے تین کانسٹیبلز کو چھٹی دی جاتی۔۔۔۔اس طرح غیر حاضری میں بہت کمی ہو گئی۔۔۔
میرے اس اقدام سے انسپکٹر اور لائن آفیسر خوش نہیں تھے۔۔۔۔
لیکن مجھے ٹیپو کمپنی کے ڈی ایس پی نے بتایا۔۔۔۔کہ جب بھی کہیں ڈیوٹی جاتی ہے۔۔۔غازی کمپنی کے جوانوں کی تعداد زیادہ ھوتی ہے۔۔۔
ہم تو مشکل سے 17 یا اٹھارہ کانسٹیبلز ایک پلاٹون کے بھیجتے ھیں ۔۔جبکہ غازی کمپنی کی ایک پلاٹون میں 25 جوان آتے ہیں۔۔۔۔
اس کے بعد عادی غیر حاضر ھونے والوں کے لیے میں نے کیش جرمانے کی بجائے ۔۔۔۔فزیکل سزا دینے کا حکم جاری کیا۔۔۔۔پہلے ان کو جرمانہ کی سزا دی جاتی تھی۔۔۔۔لیکن وہ سزا تو ان کے بیوی بچوں کو ملتی تھی۔۔۔۔وہ گھر پر خرچہ کم بھیجتے ھوں گے۔۔۔۔اور کہتے ھوں گے جرمانہ ادا کر دیا ھے۔۔۔۔
لیکن جب انھیں۔۔۔بندوق اٹھا کر سزا کے طور پر گراونڈ کے چکر لگانے ہڑتے۔۔۔تو خود ہی غیر حاضر ھونا چھوڑ دیتے۔۔۔یہ ڈیوٹی۔۔۔ عام طور پر جلسے جلوس۔۔۔وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے روٹ کے لیے۔۔۔اور ھر ھفتہ اتوار ائرپورٹ پر وزیر اعظم کے طیارے کی ڈیوٹی کے لیے جاتئ۔۔۔۔
وزیر اعظم نواز شریف تھے۔۔۔جو اسلام آباد سے لاہور آتے تھے۔۔۔
ایک پلاٹون کوٹ لکھپت جیل سے ملزموں کو لے کر کینٹ کچہری میں عدالتوں کی پیشیوں کے لیے لے کر آتی اور شام کو ان ملزموں کو دوبارہ کوٹ لکھپت جیل میں جمع کرواتی۔۔۔
ایک روز مجھے لائنز آفیسر نے کہاکہ کینٹ کچہری کی ڈیوٹی کا ملاحظہ کریں۔۔۔۔میں کینٹ کچہری پہنچی۔۔۔۔ایک حوالات میں جو صرف دس لوگوں کے لیے ہو گی۔۔۔میں تیس سے زائد ملزموں کو بند کیا گیا تھا۔۔۔جو بمشکل کھڑے ھو کر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔
کچھ ملزم مختلف جگہوں پر بیٹھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کھانا کھا رھے تھے۔۔۔۔جبکہ ان کے ساتھ ڈیوٹی کرنے والے کانسٹیبل ان کے قریب کھڑے تھے۔۔۔۔
یہ عجیب نظارہ تھا۔۔۔جو نہایت تکلیف دہ تھا۔۔۔۔جو ملزم اور ان کے اہل خانہ پیسے خرچ کر سکتے تھے۔۔۔وہ آزادی سے اپنے اہل خانہ سے مل سکتے تھے۔۔۔گھر کا کھانا کھا سکتے تھے۔۔۔اور حوالات سے باھر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کر سکتے تھے۔۔۔
جبکہ باقی ملزمان کو بھیڑ بکریوں کی طرح بند کیا گیا تھا۔۔۔جہاں بیٹھنے تک کی جگہ نہیں تھی۔۔۔۔
میرے لیے یہ نظارہ ایک تازیانے سے کم نہ تھا۔۔۔
میں نے یہ صورت حال بتا کر۔۔۔ایس پی ھیڈ کوارٹرز سے درخواست کی کہ غازی کمپنی سے جیل ڈیوٹی واپس لے لی جائے۔۔۔۔جسے انھوں نےنہایت مہربانی سے قبول کر لیا۔۔۔۔
چوھدری اسلم ایس پی ھیڈ کوارٹرز ایک زیرک اور مہربان پولیس آفیسر تھے۔۔۔انھوں نے کبھی میرے کام میں مداخلت نہیں کی تھی۔۔۔۔بلکہ پولیس لائن میں ڈی ایس پی سیکیورٹی کا کام بھی میرے ذمہ لگا دیا۔۔۔ ۔جن کے لیے میں پولیس لائن جاکر اس کو بھی نبٹاتی۔۔۔میرے پاس ایک آفس پولیس لائن میں بھی تھا۔۔۔جس میں ٹیلی فون اور تمام عملہ موجود تھا۔۔۔
ان دنوں میجر مبشر ایس پی بن کر آئے تھے۔۔۔۔ان کی پوسٹنگ نہیں ھوئی تھی۔۔۔ان کے پاس کوئی دفتر بھی نہیں تھا۔۔۔۔
وہ میرے دفتر کے باھر والے لان میں بیٹھتے تھے۔۔۔۔انھوں نے جب فون کرنا ہوتا تو میرے دفتر میں آجاتے۔۔۔میں نے اپنے عملے سے کہہ رکھا تھا کہ وہ جب بھی آئیں ان کے لیے چائے کا بندوبست کیا کریں۔۔۔۔
ان دنوں حامد علی خان نے ای ایم ای میں میری غزلوں کی ریکارڈنگ کروانی شروع کی۔۔۔انھوں نے دس غزلیں گائیں۔۔۔۔جن پر مشتمل کیسٹ کا نام "انتظار ” رکھا گیا۔۔۔۔
اس کیسٹ کو اسلام آباد کی شالیمار ریکارڈنگ کمپنی نے ریلیز کیا۔۔۔۔
اس کیسٹ اور کتاب ” جب نہر کنارے شام ڈھلی ” کی تقریب رونمائی۔۔۔۔
فلیٹز ھوٹل میں ھوئی۔۔۔۔صدارت بانو قدسیہ کی تھی۔۔۔مہمان خصوصی۔۔۔چوھدری شجاعت حسین۔۔۔مضامین۔بشری رحمن۔۔ اظہرجاوید۔۔۔۔اجمل نیازی۔۔۔مسرت کلانچوی۔۔کے تھے جبکہ گلوکار حامد علی خان تھے۔۔
بانو قدسیہ کے مضمون کے چند جملے۔۔۔
"دراصل نیلما کی شاعری آنسو کی زبان ہے۔۔۔۔۔وہ غم کی بارش میں بھیگتی رہی ہے۔۔ اور اب ایک ایسے چھتنارے درخت تلے کھڑی ہے۔۔۔جس کے پتے بارش ختم ہو چکنے کے بعد بھی بوند بوند برس رہے ہیں۔۔۔جو لوگ اتنی ہی دیر تک بھیگتے رہیں۔۔۔۔۔وہ ہی نیلما کی شاعری سے حظ اٹھا سکیں گے۔۔ اور اس شعر کو سمجھ سکیں گے۔۔۔”
ھم نے جس کی خواھش کی
اس کو ھماری چاہ نہ تھی
جس نے ھماری خواھش کی
ھم کو اس کی چاہ نہیں
                                                                                                (جاری ہے)

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی