سلسہ جات

کُچھ کھٹی میٹھی یادیں (۲۸)


از: نیلما ناہید درانی
چار دناں دا پیار او رَبا ۔۔۔۔۔بڑی لمبی جدائی
میرے دفتر میں شاعروں ،ادیبوں، گلوکاروں، فنکاروں کا ہجوم رہتا تھا۔۔۔جس سے بہت سے انکشاف بھی ہوئے۔۔۔۔احمد عقیل روبی۔۔۔۔ اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوانے آئے تو پتہ چلا۔۔۔ان کا اصل نام "غلام حسین سوز "ہے
یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی۔۔۔۔غلام علی کی آواز میں گائی گئی اس غزل کے خالق محسن نقوی کا اصل نام۔۔۔غلام عباس تھا۔۔۔
ایک دن منو بھائی کی مقبول ڈرامہ سیریل۔”۔سونا چاندی” کے کردار سونا چاندی یعنی شیبا حسن اور حامد رانا بھی آئے۔۔۔انھوں نے اپنے کاغذات تصدیق کروانے تھے۔۔۔۔سب سمجھ رہے تھے کہ اب ٹریفک آفس میں ان کا کوئی اپنا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ جو پولیس کے نام سے ڈرتے تھے۔۔۔اب میرے دفتر میں بےتکلفی سے بیٹھے رہتے۔۔۔
میں کام میں مصروف ہوتی۔۔۔تو عاصمی خان سب انسپکٹر کو ان سے بات چیت کے لیے بلا لیتی۔۔۔
ایک دن گلوکارہ ریشماں دفتر میں آئی۔۔۔میں چھٹی کے بعد گھر جا چکی تھی۔۔۔وہ میرے گھر کا پتہ معلوم کرکے میرے گھر پہنچ گئی۔۔۔میرے ڈیڈی کی فرمائش پر بغیر ساز کے ھمیں گیت سناتی رہی۔۔۔۔
جب اس نے یہ گیت گایا۔۔۔
چار دناں دا پیار او ربا۔۔۔۔بڑی لمبی جدائی ۔۔۔۔تو ڈیڈی دیر تک روتے رہے۔۔۔
ریشماں اپنی گاڑی خود چلا کر آئی تھی۔۔۔اس کی رہائش شمع سینما کے پاس تھی۔۔۔وھاں سے پہلے ٹریفک آفس اور پھر گڑھی شاھو تک کامیابی سے ڈرائیو کرنے سے ظاھر تھا کہ وہ اچھی ڈرائیور ہے۔۔۔لہذا دوسرے دن اس کو ڈرائیونگ لائسنس ایشو کردیا۔۔۔۔جتنی دیر میں اس کا لائسنس بن کر آیا۔۔۔وہ میرے عملے کی فرمائش پر گانوں کے دو دو بول سناتی رہی۔۔۔
ایک روز ابھرتی ہوئی گلوکارہ ثریاخانم آئی۔۔۔دفتر ٹائم ختم ھو چکا تھا۔۔۔عملے کے لوگ جا چکے تھے۔۔میں بھی گھر جانے کی تیاری کر رھی تھی۔۔۔کہ ثریا خانم میرے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔
مجھے دلدار بھٹی یاد آیا ۔۔۔۔جو اس کو دیکھ کر کہا کرتا تھا۔۔۔بہ لبم رسید جانم تو بیا ثریا خانم۔۔۔۔
(امیر خسرو کی مقبول غزل کا شعر اس طرح ہے۔۔۔۔۔
بہ لبم رسید جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواھی آمد )
جس کو اس طرح کی پزیرائی مل رھی ہو۔۔۔نخرے کرنا ان کا حق بنتا ہے۔۔۔۔
میں نے بڑے احترام سے کہا۔۔۔اب چھٹی ھو چکی ھے۔۔”۔سب لوگ جا چکے ھیں۔۔۔میں بھی گھر جا رھی تھی۔۔آپ کل تشریف لے آئیں۔۔۔۔”
اس نےبرا مناتے ھوئے کہا۔۔۔کہ "میں اتنی گرمی میں گاڑی چلا کر آئی ھوں۔۔۔میرے ہاتھ جل گئے ھیں۔۔۔میں کل نہیں آسکتی۔۔۔”
"پھر جب آپ کو ڈرائیونگ لائسنس چاھئے ہوگا۔۔۔تشریف لے آئیں۔۔۔بس اتنا خیال رکھیں۔۔۔دفتر ٹائم میں آئیں۔۔”
یہ سن کر وہ غصہ سے پاوں پٹختی باھر چلی گئیں۔۔۔۔اور پھر انھوں نے میری بے رخی کا رونا۔۔۔ٹی وی کے ھر کارکن کے سامنے رویا۔۔۔کیونکہ مجھے جو بھی ملتا یہی کہتا۔۔”آپ نے ثریا خانم کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔”
یہ تو مجھے اندازہ تھا کہ یہ بہت تھینک لیس جاب ہے۔۔۔آپ لوگوں کے ھزاروں کام کریں۔۔۔ایکبار تھوڑا انتظار کرنے کا کہہ دیں۔۔۔وہ فورا سب نیکیاں بھلا کر آپ کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیتے ہے۔۔۔۔۔۔
کچھ پولیس والے بہت مثبت مزاج کے بھی تھے۔۔۔
طاھر انوار پاشا ایس پی کرائمز برانچ تھے۔۔۔انھوں نے جب کسی کے بارے میں کہنا ہوتا۔۔۔خود فون کرتے اور کہتے کہ فلاں شخص آپ سے ملے گا۔۔ ڈرائیونگ ٹسٹ لے کر دیکھ لیں اگر ۔۔۔اگر ٹھیک ہو تو بنا دیں۔۔۔
اس طرح کی مثبت سوچ اور رویے والے بہت کم پولیس آفیسر تھے
ایک روز ایک اے ایس پی ملنے آئے۔۔فرنچ کٹ داڑھی کے ساتھ بڑی بڑی زہین آنکھوں والے۔۔۔انھوں نے کہا۔۔۔میں ایس ایس پی کی میٹنگ میں آیا تھا۔۔۔آپ کا نام دیکھ کر ملنے آیا ھوں۔۔۔ان کا نام۔۔۔ناصر خان درانی تھا۔۔۔انھوں نے بتایا کہ ان کے والد۔۔حمید خان درانی بھی ایس پی تھے۔۔۔یہ نام سنتے ھی میں اپنے بچپن کی راہگزاروں میں پہنچ گئی۔۔۔
ھمارا گھر رسول پارک میں تھا۔۔۔میں لاھور کالج جانے کے لیے شمع سینما کے پاس سے گزرتی۔۔تو پیر غازی روڈ کی طرف جانے والی سڑک کے کونے پر ایک کوٹھی کے باھر یہ نام لکھا ھوتا۔۔۔حمید خان درانی۔۔سپرنٹنڈنٹ پولیس۔۔۔۔۔۔
اس گھر کے بالکل سامنے یوتھ ھاسٹل تھا۔۔۔جہاں مختلف ملکوں سے آئے ھیپی رھتے تھے۔۔۔۔اس زمانے میں حشیش کے نشہ کے لیے یہ خانہ بدوش ھیپی پاکستان کا رخ کرتے۔۔۔
امن و امان کی صورت حال بہت اچھی تھی۔۔۔جرائم کی تعداد بھی کم تھی۔۔۔خواتین بلاخوف و خطر زیورات پہن کر سڑکوں پر پھرتیں۔۔۔سونے کی چوڑیوں سے بھری کلائیوں کے ساتھ بسوں اور ٹانگوں میں سفر کرتیں۔۔۔
ایسے میں غیر ملکی شہری بھی محفوظ تھے۔۔۔۔ان ھیپیز کو دیکھ کر دیوانند اور زینت امان کی فلم یاد آجاتی۔۔۔جس کا گیت بہت مشہور تھا۔۔۔۔دم مارو دم۔۔۔۔مٹ جائے غم
ناصر خان درانی سے مل کر احساس ھوا کہ تعلیم کے ساتھ انسان کی گھریلو تربیت اور کسی حد تک خاندانی خون اس کے مثبت رویوں کا آئینہ دار ھوتا ہے۔۔۔۔
ان کے بر عکس۔۔ اے ایس پی۔پرویز راٹھور۔۔ اے ایس پی کلب عباس اور اے ایس پی مشتاق سکھیرا۔۔۔۔۔۔۔کی منفی سوچ کا عکس ان کے چہروں سے عیاں تھا۔۔۔۔جو خوش اخلاقی کی مصنوعی تہہ سے بھی چھپ نہیں سکتا تھا۔۔۔۔
یا وہ ایک گروپ کا حصہ تھے۔۔۔۔جو آئی جی پنجاب۔۔۔صباح الدین جامی ۔۔۔کے خلاف تھا۔۔۔۔
ان کا زور آئی جی پنجاب پر تو نہیں چل رھا تھا۔۔۔۔لیکن میری پوسٹنگ آئی جی پنجاب کی طرف سے ہوئی تھی۔۔۔۔ویسے بھی صنف نازک ھونے کی وجہ سے میں ان کا آسان نشانہ تھی۔۔۔۔
جو لوگ اپنی بیویوں کی عزت نہیں کرتے تھے۔۔۔وہ کسی عورت کو کیسے عزت دے سکتے تھے۔۔۔۔
مشتاق سکھیرا شادمان میں جی او آر 3 کے وزیٹر فلیٹ میں رھتے تھے۔۔۔جس کے گراونڈ فلور پر فخرالدین بلے رھتے تھے۔۔۔۔فخرالدین بلے کے گھر میں ادبی نشستوں کا باقاعدگی سے اھتمام کیا جاتا تھا۔۔۔اس وقت کے تمام اھم ادیب اور شاعر وھاں جمع ھوتے جن کے لیے پر تکلف کھانے کا اھتمام بھی ھوتا۔۔۔۔
فخر الدین بلے مجھے ان تقریبات میں مدعو کرتے۔۔۔۔اور نہایت شفقت فرماتے۔۔۔۔
ان کی بالائی منزل سے اکثر لڑائی کی آوازیں آتیں۔۔۔۔اور مشتاق سکھیرا کی بیگم۔۔۔۔روتی ھوئی اپنے بچے کو گود میں اٹھائے سیڑھیاں اتر کر باھر جارھی ھوتی۔۔۔۔
جو لوگ اپنے گھر کی خواتین کو تحفظ نہیں دے سکتے وہ دوسری خواتین کی کیسے عزت کر سکتے ہیں۔۔۔
                                                                                                 (جاری ہے)
نیلما ناھید درانی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی