سلسہ جات

کُچھ کھٹی میٹھی یادیں(۳۱)


از: نیلما ناہید درانی
سپیشل برانچ پنجاب ۔۔۔ اور جنرل ہسپتال
سپیشل برانچ پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی چوھدری سردار محمد تھے۔۔۔۔میرے دل میں ان کے لیے بہت عزت تھیکیونکہ وہ ایک معمولی گھرانے سے تعلیم حاصل کرکے اپنی محنت سے اتنے بڑے عہدے تک پہنچے تھے۔۔۔
میں تبادلہ کے بعد ڈیوٹی پر رپورٹ کرنے۔۔۔۔رابرٹس کلب میں واقع سپیشل برانچ ہیڈکوارٹرز پہنچی۔۔۔
چوہدری سردار محمد کے اردلی کو چٹ دی۔۔۔۔اس نے آ کر کہا۔۔۔۔ایس پی ایڈمن کو رپورٹ کریں۔۔۔۔
اسی بلڈنگ کی بالائی منزل پر ایس پی ایڈمن کا کمرہ تھا۔۔۔میں نے ان کے اردلی کو اپنے بارے میں بتایا۔۔۔
اس نے کہا صاحب مصروف ہیں۔۔۔آپ انتظار کریں۔۔۔۔وہاں کوئی انتظار گاہ نہیں تھی۔۔۔میں اردلی کی کرسی پر بیٹھ کر۔۔۔۔ایس پی ایڈمن تنویر حمید۔۔۔۔کے بلانے کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔
مجھے محسوس ہوا کہ یہاں بھی وہی گروہ موجود ہے۔۔۔۔جن کے لیے میرا وجود ناقابل برداشت ہے۔۔۔۔۔
فرخندہ اقبال کی پوسٹنگ بھی سپیشل برانچ میں تھی۔۔۔۔
میں نے اردلی سے ان کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔انھوں نے بتایا کہ میڈم کبھی کبھار آتی ھیں۔۔۔۔اور ڈی آئی جی سعادت اللہ خان سے مل کر واپس چلی جاتی ہیں۔۔ ۔
شام چار بجے کے قریب۔۔۔۔مجھے تنویر حمید نے بلایا۔۔۔۔اور آفس سپرنٹنڈنٹ کو بلا کر کہا۔۔۔کہ ان کی چارج رپورٹ بنا کر لائیں۔۔۔۔میں نے چارج رپورٹ پر دستخط کیے۔۔۔اور واپس گھر چلی آئی۔۔۔۔۔
ہفتہ بھر میں اسی طرح دفتر جا کر۔۔۔تنویر حمید کے اردلی کی کرسی پر بیٹھی رہتی۔۔۔۔
مجھے نہیں بتایا جارھا تھا۔۔۔کہ میں نے کیا کام کرنا ہے۔۔۔۔یا میری کیا پوسٹنگ ھوئی ہے۔۔۔۔
تنویر حمید مصروف رھتے۔۔۔ان کی مصروفیت صحافی صہیب مرغوب تھا جو ھر وقت ان کے دفتر میں موجود ھوتا۔۔۔۔چھٹی کے بعد گھر جاتے ھوئے۔۔۔تنویر حمید۔۔۔۔صہیب مرغوب کو جنگ اخبار کے دفتر اتارتے۔۔۔۔اور پھر اپنے گھر جاتے۔۔۔۔تنویر حمید قربان لائنز کے سرکاری گھر میں رھتے تھے۔۔۔۔
میں اس انتظار میں تھی کہ میری پوسٹنگ ہو۔۔۔۔اور کوئی دفتر اور کام ملے۔۔۔۔
ابھی سپیشل برانچ میں آئے دوسرا ہی دن تھا۔۔۔۔کہ گھر سے دفتر آتے ھوئے۔۔۔۔پولیس لائن ھیڈکوارٹر کے سامنے سے گزرتے ہوئے کچھ کانسٹیبلز نے گاڑی روک کر۔۔۔مجھے گاڑی سے اترنے کا کہا۔۔۔۔اور ڈرائیور سے گاڑی کی چابی چھین لی۔۔۔یہ پولیس گردی۔۔۔اے ایس پی لائن کلب عباس کے حکم کی تکمیل میں ہوئی تھی۔
کسی رپورٹر نے نوائے وقت میں یہ خبر بھی لگا دی۔۔۔
میں ڈی آئی جی لاہور جہانگیر مرزا کے پاس گئی اور ان کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔۔۔۔
جہانگیر مرزا نے اسی وقت پولیس لائن سے وہ گاڑی منگوائی۔۔۔۔
اور مجھے کہا کہ آپ کو یہ گاڑی ایک مہینہ کے لیے دی جارھی ہے۔۔۔۔اور میں ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ کو خط لکھ رھا ہوں کہ وہ ایک مہینہ تک آپ کو سرکاری گاڑی دے دیں۔۔۔۔
جہانگیر مرزا نہایت شاندار آفیسر تھے۔۔۔جب ھم پولیس میں آئے وہ ایس پی کینٹ تھے۔۔۔پھر وہ ایس ایس پی لاھور رہے۔۔۔اور اب ڈی آئی جی لاھور تھے۔۔۔وہ درمیانی قامت، سفید رنگت، گھنگھریالے بالوں اور چمکتی ھوئی چھوٹی آنکھوں کے ساتھ۔۔۔ایک چھوٹے سے گڈے لگتے تھے۔۔۔۔۔سچ ھے انسان کا چہرہ اس کے باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔۔۔۔
ایک مہینہ گزر گیا ۔۔۔۔میری پوسٹنگ ڈی ایس پی پو لیٹیکل کے طور پر ہو چکی تھی۔۔۔۔
مجھے گاڑی نہیں دی گئی تھی۔۔۔۔لیکن واپسی ہر گھر ڈراپ ھونے کے لیے کبھی کبھی گاڑی مل جاتی تھی۔۔۔میں تنویر حمید کے کمرے میں بیٹھنے لگی تھی۔۔۔لیکن جب ان سے ملنے والے آتے تو میں باھر آجاتئ۔۔۔۔۔
سپیشل برانچ میں۔۔۔۔ایک ریسرچ کا شعبہ بھی تھا۔۔۔۔جو نواز شریف دور میں قائم کیا گیا تھا۔۔۔اس کے لیے ایک 20 گریڈ کا افسر ڈائرکٹر جنرل ریسرچ حمید کو ڈائرکٹ بھرتی کیا گیا تھا۔۔۔۔کچھ اسسٹنٹ ڈائرکٹر ریسرچ بھی 17 گریڈ میں ڈائرکٹ بھرتی ھوئے تھے۔۔۔۔
ایک گریڈ 18 کے سی ایس پی آفیسر ڈائرکٹر ریسرچ تھے۔۔۔ان کا نام شفیق تھا۔۔۔۔اور اپنے نام کی ساری خصوصیات ان کے چہرے سے عیاں تھیں۔۔۔۔ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔۔۔
اس پورے دفتر میں وہ واحد تھے جو کبھی حال احوال پوچھ لیا کرتے تھے۔۔۔۔
میں روزانہ صبح دفتر آتی اور دفتر ٹائم کے بعد گھر چلی جاتی۔۔۔۔میرے بچے کیتھیڈرل سکول چرچ روڈ میں پڑھتے تھے۔۔۔ان کے لانے لےجانے کے لیے میں نے رکشہ لگوا رکھا تھا۔۔۔۔جو میری ٹریفک ڈیوٹی کے دوران بھی جاری رھا تھا۔۔۔انھی شب و روز میں دو سال بیت گئے
ایک روز میں ڈیوٹی سے گھر پہنچی۔۔۔بچے سکول سے آ چکے تھے۔۔۔انھوں نے کسی چیز لینے کی فرمائش کی۔۔۔۔میں انھیں لے کر بازار چلی گئی۔۔۔۔
گھر واپس آئی۔۔۔۔تو پتہ چلا۔۔۔ڈیڈی کا ایکسیڈنٹ ھو گیا ھے۔۔۔۔اور ان کو شالیمار ھسپتال لے جایا گیا ہے۔۔
بچوں کو گھر چھوڑ کر شالیمار ھسپتال پہنچی ۔۔۔۔تو پتہ چلا۔۔۔ڈیڈی کو جنرل ھسپتال بھیج دیا گیا ھے۔۔۔
وھاں سے جنرل ھسپتال گئی۔۔۔۔
ڈیڈی کو سکین کے لیے لے جایا جارھا تھا۔۔۔۔ھیڈ انجری ھوئی تھی۔۔۔۔
میں ، میرے دونوں بھائی اور امی ھسپتال میں موجود تھے۔۔۔۔
نرسیں اور ڈاکٹر کچھ بتا نہیں رھے تھے۔۔۔۔
ڈیڈی کو آئی سی یو میں بھیج دیا گیا۔۔۔
اگلے 48 گھنٹے اھم تھے۔۔۔۔سب دعائیں مانگ رہے تھے۔۔۔ میری بہنیں اور ڈیڈی کے بہن بھائی بھی ھسپتال پہنچ گئے تھے۔۔۔
دوسرے روز میں سپیشل برانچ گئی۔۔۔ڈائرکٹر ریسرچ شفیق صاحب نے میری چھٹی منظور کروا دی۔۔۔۔
اور ھسپتال والوں کو لیٹر بھی لکھ دیا۔۔۔۔
جس سے ھمیں ھسپتال میں کمرہ مل گیا۔۔۔ڈیڈی کو 48 گھنٹے بعد آئی سی یو میں ھی رکھا گیا تھا۔۔۔
میں ،بھائی اور امی کمرے میں رھتے۔۔۔نرسیں دوائی کی چٹ لے کر آتیں جو ان کو خرید کر دے دی جاتیں۔۔۔
ڈیڈی قومے میں جا چکے تھے۔۔۔۔لیکن ڈاکٹر اور نرسیں۔۔۔ھمیں یہی کہتے۔۔۔کہ قومے سے صرف 5 فیصد لوگ ھوش میں آتے ھیں۔۔۔۔اور پھر انکی شخصیت بدل چکی ھوتی ھے۔۔۔یا پھر یاد داشت ختم ھو جاتی ہے۔۔۔میں ان سے کہتی۔۔۔انشا اللہ۔۔۔ڈیڈی ان 5 فیصد میں ھوں گے جو قومے سے باھر آئیں گے۔۔۔
نیورو سرجن۔۔ڈاکٹر بشیر تھے۔۔۔۔ان کے علاوہ انھی کے بھتیجے ڈاکٹر نذیر تھے۔۔۔۔وہ ڈیڈی پر خصوصی توجہ دے رہے تھے۔۔۔۔نو عمر ڈاکٹروں میں ڈاکٹر انور چوھدری اور ڈاکٹر حسن عسکری تھے۔۔۔یہ سب سگے بھائیوں کی طرح ھم سے پیش آتے۔۔۔۔
ھسپتال سے باھر کیا زندگی تھی۔۔۔ھم گویا بھول چکے تھے۔۔۔
جونہی ڈیڈی کی پلک جھپکنے کی خبر ملتی۔۔۔خوشی سے نہال ھو کر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے۔۔۔
کبھی کبھی اچانک خون کی ضرورت پڑتی۔۔۔وہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا۔۔۔۔
لیکن اللہ کی ذات مسبب الاسباب ھے۔۔۔او نیگٹو خون کا بھی انتظام ہو جاتا۔۔۔۔
ایک روز خون کی ضرورت تھی۔۔۔لیکن انتظام نہیں ھو رھا تھا۔۔۔ھسپتال کے برامدے میں۔۔۔۔میں پریشانی سے پھر رھی تھی۔۔۔۔کہ ایک نوجوان لڑکے نے پاس آکر کہا کہ۔۔۔۔اگر آپ کے مریض کو خون کی ضرورت ہے۔۔۔تو میرے پاس ڈونر موجود ھیں۔۔۔۔
مجھے اس پر یقین نہیں آیا۔۔۔پھر بھی ضرورت مند کے لیے تنکے کا سہارا کافی ھوتا ھے۔۔۔۔
میں نے بتایا۔۔۔او نیگیٹو خون چاہئے۔۔۔
وہ کہنے لگا۔۔۔مجھے وارڈ بتائیں۔۔۔میں پندرہ بیس منٹ تک آ جاوں گا۔۔۔میں نے اسے کمرہ نمبر بتایا۔۔۔
ٹھیک پندرہ منٹ کے بعد وہ لڑکا۔۔۔ایک اور لڑکے کے ساتھ آیا۔۔۔اور اس نے کہا۔۔۔اس کا خون او نیگیٹو ہے۔۔۔
میں ان کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔۔۔جب وہ خون دے چکے تو میں نے ان سے۔۔۔۔ھدیہ کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔
انھوں نے کہا کہ ھماری تنظیم فی سبیل اللہ ضرورت مند مریضوں کے لیے خون کے عطیات دیتی ھے۔۔۔
ھم نے انھیں عطیہ کے طور پر رقم دینا چاھی۔۔۔مگر انھوں نے وہ بھی قبول نہیں کی۔۔۔۔
اس لمحے مجھے اپنی قوم پر فخر محسوس ھوا۔۔۔۔جس کے نوجوان انسانیت کی خدمت کر رھے تھے۔۔۔اس سے اچھی قوم۔۔۔۔بھلا کہاں ھوگی۔۔۔۔
۔ میں جب بھی آفس جاتی۔۔۔
ڈائرکٹر ریسرچ شفیق۔۔۔ڈیڈی کی طبیعت کے بارے میں پو چھتے۔۔۔
لیکن کبھی کسی پولیس آفیسر نے حال تک نہیں پوچھا۔۔۔۔۔
ڈیڈی کو چھ ماہ بعد ھوش آگیا۔۔۔
اور ھم ان کو گھر لے آئے۔۔۔۔ان کو ھوش آچکا تھا۔۔۔لیکن یاد داشت جا چکی تھی۔۔۔وہ کسی کو پہچانتے نہیں تھے۔۔۔۔۔ھم خوش تھے۔۔۔کہ آخر کار ھماری دعاوں اور ڈاکٹرز کی محنت نے انھیں دوبارہ۔۔۔زندگی دے دی تھی۔۔۔۔
ڈیڈی کا ایکسیڈنٹ۔۔۔21 فروری 1989 کو ہوا تھا
                                                                                           (جاری ہے)

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی