از : نیلما ناہید درانی
ٹریفک دفتر۔۔۔۔۔۔۔اور ہم
مجھے ڈی ایس پی ٹریفک لاہور لگایا گیا تھا۔۔۔۔آئی جی پنجاب صباح الدین جامی کی خواہش تھی کہ جیسے لاہور میں پہلی بار کسی خاتون کو اسسٹنٹ کمشنر کینٹ سرکل لگایا گیا ہے۔۔۔۔جو راشدہ حیات تھیں۔۔۔۔اسی طرح پولیس کی ڈی ایس پی کو پبلک سروس کی ڈیوٹی دی جائے۔۔۔۔جو ڈی ایس پی ٹریفک لائسنسنگ اتھارٹی کی تھی۔۔۔
میں ٹریفک لاہور کے دفتر پہنچی۔۔۔یہ دفتر ضلع کچہری کے ساتھ۔۔۔۔اسلامیہ کالج سول لائنز کے سامنےتھا۔۔۔یہ ایس ایس پی لاھور کا دفتر تھا۔۔۔۔ایس ایس پی لاھور رانا مقبول تھے۔۔۔ایس پی ٹریفک ہاکی کے چیمپین ذکاالدین تھے۔۔۔ٹریفک دفتر میں دو ڈی ایس پی اور ایک اے ایس پی بھی تھے۔۔۔۔
آغا روف اور ریاض حشمت ڈی ایس پی تھے۔۔۔پرویز راٹھور اے ایس پی تھے۔۔۔۔جو لائسنسنگ اتھارٹی کے طور پر کام کر رہے تھے۔۔۔۔رانا مقبول نے ۔۔۔ اے ایس پی پرویز راٹھور کو ایس پی ایڈمن لگا دیااور لائسنسنگ کا چارج مجھے مل گیا۔
میں ڈی ایس پی ٹریفک لاھور لائسنسنگ اتھارٹی تھی۔۔۔۔لیکن مجھے گاڑی نہیں دی گئی۔۔۔۔مجھ سے پہلے پرویز راٹھور کے پاس جو گاڑی تھی وہ انھوں نے۔۔۔پولیس لائن بھجوا دی اور اے ایس پی پولیس لائن کو کہہ دیا کہ خاتون ڈی ایس پی کو گاڑی نہیں دینی۔۔۔۔
مجھے احساس ھو گیا کہ یہاں کسی کو میری پوسٹنگ پسند نہیں ہے۔۔۔بس آئی جی پنجاب کے احکامات پر عمل کرنا ان کی مجبوری ہے۔۔۔۔
پولیس لائن کے اے ایس پی کا نام کلب عباس تھا۔۔۔۔جس کے والدین نے ہی اس کانام "کتا” رکھا ہو۔۔اس سے بھلائی کی کیا امید ہو سکتی تھی۔۔۔
میرے بچے رکشہ پر سکول جاتے تھے۔۔۔اور میں دفتر۔۔۔ سواریوں والی ویگن پر آتی تھی۔۔۔
ایک دن میں نے ایس ایس پی لاھور کو درخواست دی کہ اس سیٹ سے متعلقہ گاڑی مجھے دلوائی جائے۔۔۔
جس پر انھوں نے اپنے پی اے سے کہا۔۔۔۔”لیڈی ڈی ایس پی کو گاڑی مت دینا۔۔۔وہ اس پر بیوٹی پارلر چلی جائے گی۔۔۔”۔
پھر میں نے ان سے کبھی گاڑی کے لیے درخواست نہیں کی۔۔۔
ایک روز میں ویگن پر دفتر کے بعد گھر جارہی تھی۔۔۔کہ ایک کونے میں چھپے پولیس کانسٹیبل نے ویگن روک لی۔۔۔اور ڈرائیور کو ناجائز تنگ کرنے لگا۔۔۔دیر ہونے کی وجہ سے سب سواریاں تنگ ہو رھی تھیں۔۔۔
میں نے تنگ آ کر اس کانسٹیبل کو کہا۔۔۔میں ڈی ایس پی ٹریفک ھوں۔۔اس ویگن کو جانے دو۔۔ اس کے کاغزات بھی پورے ھیں اور ڈرائیور نے کوئی خلاف ورزی بھی نہیں کی۔۔۔
کانسٹیبل نے بڑی بے یقینی سے مجھے دیکھا اور ہوچھا۔۔” آپ ناہید بی بی ہیں "
میں نے کہا ” ہاں”
اس پر اس نے کہا۔۔۔آپ ناھید بی بی کیسے ھو سکتی ھیں ۔۔وہ تو سانولے رنگ کی ھیں۔۔”
بہر حال اس نے ویگن ڈرائیور کو چھوڑ دیا۔۔۔دوسرے دن میں نے اس کانسٹیبل کو اپنے دفتر بلوایا۔۔۔
وہ مجھے دیکھ کر معافیاں مانگنے لگا۔۔۔۔
میں نے اس کو معاف کر دیا۔۔۔لیکن کچھ دنوں بعد یہ انکشاف ہوا کہ ٹریفک دفتر میں کام کرنے والی ایک سب انسپکٹر خود کو ڈی ایس پی ظاھر کرتی ھے۔۔۔اس کا نام ناھید اختر ھے اور رنگت کافی سانولی ہے۔۔۔
ایس ایس پی آفس میں ایک فارن آفس بھی تھا۔۔۔جہاں دوسرے ملکوں خاص طور پر انڈیا سے آنے والے سیاح اپنا اندراج کرواتے تھے۔۔۔وھاں سب انسپکٹر مقدس عاصمی خان کی ڈیوٹی تھی۔۔عاصمی خان ان دنوں بہت ہریشان تھی۔۔۔اس کی شادی ایک وکیل سے ھوئی تھی۔۔۔ایک سال بعد ایک بچی پیدا ھوئی۔۔۔اس کی بچی ابھی ایک ماہ کی تھی۔۔کہ اس کا شوھر قتل ہوگیا۔۔۔
وہ روزانہ اپنے شوھر کے قتل کی پیروی کے لیے عدالتوں میں جاتی۔۔اس کے شوھر کے وکیل دوست اس کا مقدمہ لڑ رھے تھے۔۔۔لیکن قاتل بہت اثر ورسوخ والے تھے۔۔۔اس لیے اس کو کامیابی نہیں ھو رھی تھی۔۔۔
میں مقدس عاصمی کو اپنے دفتر میں بلا لیتی۔۔۔اس کی دلجوئی کرتی۔۔اس کو تسلی دیتی۔۔۔آھستہ آھستہ اس کا غم کم ھوگیا اور وہ پہلے جیسی زندہ دل عاصمی خان بن گئی۔۔۔لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔۔۔
اس کی بڑی بہن کے گردے فیل ھو گئے اور وہ ڈیلسسز کروانے لگی۔۔۔عاصمی خان میو ھسپتال کے ڈاکٹرز کے ڈرائیونگ لائسنس بنوا کر دیتی۔۔۔تو وہ اس کی بہن کا خصوصی خیال رکھتے۔۔۔دوائیوں کے لیے دفتر کے سامنے محکمہ ذکوات والوں سے بھی رابطہ کیا گیا۔۔۔ایک مرحلہ خون کا تھا۔۔۔۔جب بھی خون کی ضرورت ھوتی۔۔۔ھم اسلامیہ کالج سول لائن کے سٹوڈنٹ لیڈرز کو بلاتے ۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی نوجوان خون کا عطیہ دینے پہنچ جاتے۔۔۔۔بدلے میں ہم ان کے ڈرائیونگ لائسنس بنا دیتے۔
اے ایس پی پرویز راٹھور سے پہلے ڈی ایس پی ریاض حشمت لائسنسنگ اتھارٹی تھا۔۔۔۔وہ بغیر پیسوں کے کوئی لائسنس نہیں بناتا تھا۔۔۔۔۔آئی جی پنجاب حبیب الرحمن اس کے بہنوئی تھے ۔۔لہذا سالا صاحب کا خیال تھا کہ وہ جو چاھے کر سکتا ہے۔۔۔
ایک روز اس سے تنگ آکر کسی نے پیسے دے کر اس سے ایک مردے کا ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیا۔۔۔۔۔
اور اس کو معطل کر دیا گیا۔۔۔۔وہ اب بھی ٹریفک میں تعینات تھا۔۔۔مگر اس سے لائسنس بنانے کی ذمہ داری چھین لی گئی تھی۔۔۔۔عوام بھی اس سے خوش تھی کہ ان کو بغیر ٹسٹ کے گھر بیٹھے ڈرائیونگ لائسنس مل جاتے تھے۔۔۔۔لوگ ٹریفک دفتر آکر ٹسٹ دینے پر پیسےخرچ کر نے کو ترجیع دیتے تھے۔۔۔
مجھے احساس ھو چکا تھا۔۔۔کہ میری پوسٹنگ سے کوئی خوش نہیں۔۔اس لیے مجھے بہت زیادہ محتاط رھنے کی ضرورت تھی۔۔۔اس لیے میں نے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے والے کی حاضری ضروری قرار دے دی۔۔۔۔خواہ کسی کی سفارش ہو میں امیدوار کو دیکھے بغیر لائسنس ایشو نہیں کرتی تھی۔۔۔
ایس پی ٹریفک ذکاالدین کو کئی کئی دنوں کے لیے ھاکی میچوں کی کوچنگ کے لیے جانا پڑتا۔۔۔۔۔۔ان کے بھائی مصلح الدین پی ٹی وی ھیڈ کوارٹر میں ڈائرکٹر تھے۔۔۔ھاکی میچوں کی کمپیئرنگ بھی ذکاالدین کے ذمہ ہوتی۔۔۔ان کا دفتر ھر وقت شہر بھر کے اخبارات کے کرائم رپورٹرز سے بھرا رھتا۔۔۔ان کی غیر موجودگی میں بھی یہ
رپورٹر ان کے دفتر میں موجود رھتے۔۔اور ان کا اردلی ان کے لیے چائے اور کھانے کا انتظام کرتا رہتا۔۔
میں نے اپنی پہلی کتاب۔۔۔ڈی آئی جی ٹریفک پنجاب کے دفتر میں مکمل کرلی تھی۔۔۔اب اس پر کسی سینئر دانشور کی رائے لینا باقی تھا۔۔۔
میں نے اپنی کتاب کا مسودہ اپنے بھائی آغا مدثر کے ذریعے واصف علی واصف کو بھجوایا۔۔۔۔میرا بھائی واصف علی واصف کا شاگرد تھا۔۔۔۔کئی دن گزرنے پر میں بھائی کے ساتھ ان کے گھر گئی۔۔۔۔
واصف علی واصف نے مسودہ مجھے واپس کرتے ھوئے کہا۔۔”۔اس کو اصلاح کی نہیں چھپنے کی ضرورت ہے۔۔۔”
اجازت مل چکی تھی۔۔۔میں نے اپنا مسودہ کتابت کے لیے۔۔پی ٹی وی کے ایک کاتب کے حوالے کیا۔۔۔جو اردو بازار میں کتابت کا کام کرتا تھا۔۔۔۔
ایک روز اتفاق فونڈری کا ایڈمن آفیسر ایک بچے کا لائسنس بنوانے آیا۔۔۔۔بچے کی عمر سولہ سال تھی۔۔۔جبکہ ڈرائیونگ لائسنس 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو نہیں دیا جا سکتا تھا۔۔۔۔اس بچے کا نام حسین نواز تھا۔۔۔اور اس کے والد پنجاب کے وزیر اعلی نواز شریف تھے۔۔۔۔
میں نے موٹر وہیکل آرڈیننس کا وہ قانونی پیرا۔۔۔اس شخص کے حوالے کیا اور کہا کہ یہ غیر قانونی کام میں نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
نیلما ناھید درانی