شاعر : خورشید ربانی
میں ایک پھول سیر کیا اُس کے باغ میں
پھر چل پڑی تھی تیز ہوا اُس کے باغ میں
جھونکا ہوا کا سبز رگیں توڑتا نہ ہو
آتی ہے سسکیوں کی صدا اُس کے باغ میں
آنکھیں نہ تاب لائیں وگرنہ مرے لیے
کیا کیا طلسمِ رنگ کھلا اُس کے باغ میں
اک دن تو کوئی ایسی ہوا اِس طرف چلی
وہ مجھ میں کھل اٹھا،میں کھلااُس کے باغ میں
بے پردہ دشت میں ہے شفق رُو کہ آج کل
پھرتا ہے کوئی آبلہ پا اُس کے باغ میں
مجھ کو رلاتا رہتا ہے اب بھی روش روش
سبزہ جو پائمال ہوا اُس کے باغ میں
آسودگی ِ دیدہ و دل ہی سے کام تھا
خورشید جتنی دیر رہا اُس کے باغ میں