اسد رحمان
ایک بازی میں ہوئے ایسے خسارے صاحب
ہم نےآنکھیں ہی نہیں خواب بھی ہارے صاحب
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ ایسا کیا ہے
جس پہ ہنستے ہیں مقدر کے ستارے صاحب
تجھ سے جو رشتہ ہے وہ کون سمجھ پائے گا
اے مری جان کے دشمن مرے پیارے صاحب
پہلی آواز بھی پتھر سے اُچٹ کر لوٹی
دل کو سمجھا کہ اُسے پھر نہ پکارے صاحب
جانے پھر آپ کی آنکھیں مجھے کیوں یاد آئیں
جب میں پہنچا تھا سمندر کے کنارے صاحب
تم کسی کے بھی کسی کے بھی کسی کے بھی نہیں
سب تمہارے ہیں تمہارے ہیں تمہارے صاحب
مات پر رقص کیا جیت کے آزردہ ہوے
کوئی کھیلے بھی تو کیا ساتھ ہمارے صاحب
اسد رحمان