آزاد حسین آزاد
تمہاری دید کی حسرت سے کور چشم ہوا
یہ دیدہ روز کی عادت سے کور چشم ہوا
وہ جس کو نیند میں چلنا بھی اک سہولت تھا
تمہارے خواب کی شدت سے کور چشم ہوا
وہ نور تھا کہ نگہ چاک پر ٹکی ہی نہیں
بنا رہا تھا جو، حیرت سے کورچشم ہوا
یہ لوگ واقفِ آداب دید تھے ہی نہیں
یہ شہر اپنی ہی عجلت سے کور چشم ہوا
یہ کون تاپ رہا تھا ترے الاؤ کو
یہ کون لمس کی حدت سے کور چشم ہوا
یہ کس نے وصل کی خواہش میں پھوڑلیں آنکھیں
یہ کون اپنی ہی وحشت سے کور چشم ہوا