ارشد محمود ارشد
اس زندگی کی ہار سے دلگیر مت سمجھ
دنیا کو میرے پاؤں کی زنجیر مت سمجھ
محشر میں کام آئیں گے اعمال ہی ترے
نام و نسب کو باعثِ توقیر مت سمجھ
میں بھی سخن شناس ہوں کچھ حق مجھے بھی دے
شہرِ ادب کو باپ کی جاگیر مت سمجھ
سینہ سپررہے نہ جو صَر صَرکے سامنے
اس ٹمٹماتی لو کو تو تنویر مت سمجھ
قرطاس پر پڑے ھوئے مردہ حروف ہیں
جس میں رمق نہیں اسے تحریر مت سمجھ
پانی اُبل رہا ھے یہ باطن کی آگ سے
آنسو ہمارے درد کی تشہیر مت سمجھ
کچھ سازشیں بھی کام دکھاتی ضرور ہیں
ارشد ہر ایک حادثہ تقدیر مت سمجھ