شاعر: عقیل اختر
بوجھ ایسا ہے کہ شانوں کو جھکا بیٹھے ہیں
مجتمع کر کے ترے در پہ انا بیٹھے ہیں
ہم نے اک درجۂ حیرت میں تجھے پایاتھا
اور اک درجۂ حیرت میں گنوا بیٹھے ہیں
حاضری قیس قبیلے کی سردشت ہوئی
ہم نے بھی ہاتھ اٹھا کر کے کہا:بیٹھے ہیں
دو گھڑی رک کے ہمیں پیارسے تک لے صاحب
ہم پرندے تیری دیوار پہ آ بیٹھے ہیں
دل تو قائل ہے فقط ایک خدا کا لیکن
رستۂ زیست پہ جو اتنے خدا بیٹھے ہیں
عقیل اختر