شاعر : یوسف خالد
پہاڑی راستہ ہے
ہر قدم پر موڑ ہیں،دشواریاں ہیں
مسافر کو مسافت کی لگن رکنے نہیں دیتی
کہ آنکھوں میں
کسی ان دیکھے منظر کا تصور
خواب کی صورت دمکتا ہے
کہیں کچھ دور
اک چھوٹی سی کٹیا میں
دیئے کی روشنی ہے
سماعت
بانسری کے بول کی لذت میں
ہر آہٹ سے،ہر آواز سے بے زار لگتی ہے
لبوں کی گنگناہٹ
بانسری کی لے میں شامل ہوتی جاتی ہے
مسافر چلتا جاتا ہے
مسافر کے قدم رکتے نہیں
کہ سامنے ہموار وادی ہے
جہاں پر پھول ہیں،خوشبو ہے،سبزہ ہے
دیئے کی آفتابی روشنی ہے
تھکن اوڑھے مسافر
جب بھی اس وادی میں اترے گا
تو کوئی منتظر ہو گا