شاعر: خورشیدربانی
پہلے منزل اور سفر کا سپنا روشن ہو جاتا ہے
پھراک دیپ چمکتا ہے اورجادہ روشن ہوجاتاہے
ایک مسافر چلتے چلتے کھو جاتا ہے راہ گزر میں
ایک مسافرکے قدموں سے رستہ روشن ہوجاتاہے
تشنہ لبی ٹھکرا دیتی ہے دریا کو اور دو عالم پر
اک خالی مشکیزہ اور اک صحرا روشن ہو جاتا ہے
جبر و جفا کے موسم نے گو لاکھ اندھیر مچا رکھا ہو
نخلِ وفا و صبر کا پتا پتا روشن ہو جاتا ہے
موجِ ہواخود اپنی آگ میں جل بجھتی ہے اورجہاں میں
بیعت سے انکار پہ دیپک کیا کیا روشن ہو جاتا ہے
اک موسم میں پھول نہیں کھل سکتے باغوں کے منظرمیں
اک موسم میں دشت کوئی گل زار سا روشن ہو جاتا ہے