Poetry غزل

غزل


شاعرہ: زہرا شاہ
گہرا اور کشادہ ہوگا ٬ لیکن ایسا دیکھا ہے؟
آگے آگے آجائے جی جس نے دریا دیکھا ہے
ذاتی طور پہ پستی اور قامت دونوں کا شوق نہیں
بس اتنی اونچی ہو جاوں جتنا اونچا دیکھا ہے
اس کے کان سریلے ہونگے جس نے وہ آواز سنی
اس کی آنکھیں میٹھی ہونگی جس نے "میٹھا” دیکھا ہے
کوئی اس کو "پیاس” تو کوئی "سات سمندر” بولے گا
وہ اتنی ہی بات کرے گا جس نے جتنا دیکھا ہے
بس تم نے اس شخص کے بارے خود سے ایسا سوچ لیا
کپڑے میلے ہوں گے پَر کردار بھی میلا دیکھا ہے؟
اس کے پیر پڑے تو جلتی ریت کو یکدم بخت لگے
میں نے اپنی آنکھوں سے صحرا میں بوٹا دیکھا ہے
کب تک ساتھ رہے گا مجھ کو یہ ہرگز معلوم نہیں
میں نے تو اس شخص کے بارے خواب بھی آدھا دیکھا ہے
زہرا شاہ

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں