Poetry غزل

غزل

 

شاعر: خورشید رضوی

نگاہ سے نہیں ہٹتے ترے در ودیوار
یہ میرے ساتھ کہاں چل پڑے در و دیوار

نہ منہ سے بول سکیں کچھ نہ سر سے کھیل سکیں
ہمیں گواہ بھی کیسے ملے، در و دیوار

پھر اُس دیارِ محبت میں جا کے لوٹ آئے
نہ تھے مکین توکیادیکھتے در ودیوار

اُسی کی لو سے فروزاں تھے خال وخداِن کے
بجھا چراغ تو گل ہو گئے در ودیوار

زمیں لرزنے لگی روشنی سے ٹکراکر
ستارہ آ کے گرا، بج اُٹھے در ودیوار

کہاں سے مل گئی انجام کی خبر اِن کو
کہ رہ گئے ہیں کھڑے کے کھڑے در و دیوار

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں