Poetry غزل

غزل

شاعر: شاہد فرید

اپنے ہمراہ محبت کے حوالے رکھنا
کتنا دشوار ہے اِک روگ کو پالے رکھنا

اِتنا آسان نہیں بند گلی میں رہنا
شہرِ تاریک میں یادوں کے اُجالے رکھنا

ہم زیادہ کے طلب گار نہیں ہیں لیکن
وقت کچھ بہرِ ملاقات نکالے رکھنا

بات کر لیں گے جدائی پہ کہیں بعد میں ہم
اپنے ہونٹوں پہ سرِ بزم تو تالے رکھنا

کام آئیں گے کسی روز تمھارے یہ گُہر
اپنے اَشکوں کو مری جان سنبھالے رکھنا

جِھیل پر جیسے کوئی کالی گھٹا چھا جائے
نِیلی آنکھوں پہ گھنی پلکوں کو ڈالے رکھنا

اُس کو اُجڑے ہوئے لوگوں سے ہے اُلفت شاؔہد
بال بکھرائے ہوئے، پائوں میں چھالے رکھنا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں