شیراز غفور
اس کی محفل میں مرا نام نہیں ہو سکتا
اور پھر اتنا سر عام نہیں ہو سکتا
یہ تو پھرپھول کی قسمت ہے کھلے یانہ کھلے
اب بہاروں پہ تو الزام نہیں ہو سکتا
آپ جو مجھ سے مجھے مانگ رہے ہیں صاحب
دیکھئے آپ کا یہ کام نہیں ہو سکتا
اس کے آنے کا پتہ دیتی ہے خوشبو اس کی
وہ سمجھتا ہے کہ الہام نہیں ہو سکتا
اس کہانی میں تو کردار بدل جاتے ہیں
اس کہانی کا تو انجام نہیں ہو سکتا
اب مجھے نام سے جانیں ہیں ترے شہرکے لوگ
اس سے بڑھ کر تو میں بدنام نہیں ہو سکتا
محمد شیراز غفور