شاعرہ : نجمہ منصور
احمد ہمیش!
جب تم
نظم کی دیا سلائی جلا کر اُس سے
آخری مکالمہ کررہے تھے
تو ان گنت نظمیں
درد کے الاؤ کے گرد پھیرے لگا رہی تھیں
تم پھر بھی نظم کے ساتھ مکالمہ کرتے رہے
نظم لکھتے رہے
ہر نظم پر زمانے کی آنکھ میں گرہ لگتی رہی
دھیرے دھیرے گرہوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بنتا گیا
گرہیں کھولتے کھولتے تمہارے ہاتھ زخمی ہوگئے
لفظ تمہارے دوست
لوگ تمہارے دشمن بنتے گئے
تم اُن کے دلوں کے بند دروازوں پر دستکیں دیتے رہے
کہتے رہے کہ میں تم سے الگ نہیں
تمہارے جیسا ہوں
مگر پھر بھی۔۔۔۔؟
احمد ہمیشؔ!
تم نظم کی دیا سلائی جلا کر بیٹھے رہے
دیا سلائی کی نوک پر نظمیں جلتی رہیں
جنھیں نہ ہی ہوا بجھا سکی، نہ لوگ
پھر یوں ہوا
چند سر پھرے جگنوؤں اور خوش رنگ تتلیوں نے
دیا سلائی سے نکلتی نیلی روشنی کی اُجلی لکیر سے
ایک نیا راستہ کھوج لیا
احمد ہمیش!
تم چنتا نہ کرو
تمہارے لفظ اکارت نہیں جائیں گے
دیا سلائی کی نوک پر روشن وہ نظمیں
جو تمہاری ریڑھ کی ہڈی کے گودے سے ہم کلام ہوکر
تمہارے لہو میں سرایت کر گئی تھیں
اب وہ ان گنت آنکھوں میں روشن ہیں
احمد ہمیش!
دیا سلائی کی نوک پر جلتی نظم سے آخری مکالمہ کرتے ہوئے
جب مومی لفظ تمہاری روح پر
قطرہ قطرہ گر رہے تھے
تو موت کچھ فاصلے پر کھڑی تمہاری انجلا کو
کن آنکھیوں سے دیکھ رہی تھی
اور پھر
پھر سب نے دیکھا اُداس شام نے
انجلا کی آنکھوں پر بھیگا ہوا بوسہ ثبت کیا
اور زار زار رونے لگی
شاید ایڈیسن کا آخری بلب فیوز ہو چکا تھا!!