شاعر: اقتدار جاوید
ثمر فروش کی نگاہِ دور بین میں
اندھیرا درمیان سے پھٹا
بہت سے سبز پوش تھے
کہ جن کاریشمیں لبادہ سرخ تھا
گلِ انار سرخ ہونٹوں سے زیادہ سرخ تھا
پکے ہوئے پھلوں کی خوشبوٸیں تھیں مجتمع
گھلی نہ تھی ابھی احاطہِ سیاہ میں ہوا
پکے ہوٸے پھلوں بھری مہک اُڑی نہ تھی
مقامِ متصّل سے بے خبر
نقاب در نقاب مختصر سی بیل
تھی چھپی ہوئی دلہن کی طرح اپنے آپ میں
ابھی ہلے نہیں شاخچے
لرزنی ہے ابھی نوائے خوش موذّنِ جوان کی
ابھی طیور تک خموش ہیں
نہ جو کسی بھی ذوفنون سمت سے بڑھے
نہ جو کسی کے تازہ جسم و جان سے اٹھے
دبیز خامشی میں بولتا، دبیز خامشی کو چیرتا ہوا سروش ہے
چھڑک دیا کسی نے آبِ زر فشان جھنڈ پر
چمک اٹھا سفید دن
کِھلا ثمر فروش خوشبووں میں بند باغ دیکھ کر
ہزار رنگوں والی تتلیاں
جو
اک نحیف شاخچے سے لگ کے سو رہی تھیں
جاگنے لگیں
سہاگنیں درون توڑتی، سیہ سے سفد ہوتی رات، عین آدھی رات کے دمکتے خواب کو تیاگنیں لگیں
سیاہ بادلوں کی نرم اور مہین چادروں سے
باغ ڈھانپنے لگی
ثمر فروش کی نگاہِ دوربین!!