نظم

میں پل دو پل کا شاعر ہوں : ساحرلدھیانوی

ساحرلدھیانوی

میں پل دو پل کا شاعر ہوں ، پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے    ، پل دو پل مری جوانی ہے
مجھ سے     پہلے کتنے شاعر آئے اور آ کر چلے گئے
کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے کچھ نغمے گا کر چلے گئے
وہ بھی اک پل کاقصہ تھے میں بھی اک پل کاقصہ ہوں
کل تم سے جدا ہو جاؤں گا گو آج تمہارا حصہ ہوں
پل دو پل میں کچھ کہہ پایا اتنی ہی سعادت کافی ہے
پل دو پل تم نے مجھ کو سنا اتنی ہی عنایت کافی ہے
کل اور آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے
مجھ سے بہتر کہنے والے تم سے بہتر سننے والے
ہرنسل اک فصل ہے دھرتی کی آج اگتی ہے کل کٹتی ہے
جیون وہ مہنگی    مدرا ہے جو قطرہ    قطرہ    بٹتی ہے
ساگر سے ابھری لہر ہوں میں ساگر میں پھر کھو جاؤں گا
مٹی کی روح کا سپنا ہوں مٹی میں پھر سو جاؤں گا
کل کوئی مجھ کو یاد کرے کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے
مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی