نظم

میرا ہنر میری ریاضت دم بخود ہے : یوسف خالد

مرے احساس نے
لفظوں کی خوشبو اوڑھ کر
میرے تصور سے
کسی ان دیکھے پیکر کو
نظر کے سامنے لانے ،
اسے محسوس کرنے کی انوکھی آرزو کی ہے
میں خوش تو ہوں مگر
یہ سوچ کر حیرت زدہ بھی ہوں
خدا معلوم
وہ کیسی ہے
اس کے روپ کی سج دھج کا کیا عالم ہے
اس کی آنکھیں کیسی ہیں
لب و رخسار کیسے ہیں
وہ کیسے بات کرتی ہے
وہ چلتی ہے تو
اس کی چال سے موسم ادائیں کیسے لیتے ہیں
وہ رکتی ہے
تو کیسے وقت اس کے ساتھ رکتا ہے
گھنے بالوں کو کیا وہ اپنے شانوں پہ بکھرنے کی اجازت دان کرتی ہے
یا خود کالی گھٹائیں آ کے
موسم کو بدلتی ہیں
مری چشم تصور
اس کے لہجے اس کے لفظوں سے کہیں آگے
کسی اجلے سے منظر میں
اسے جب دیکھتی ہے
تو سلیقے سے
کبھی اس خوشنما پیکر کی تصویریں بناتی ہے
کبھی اس شوخ کے احساس کی تجسیم کرتی ہے
یہ کیسی حیرتوں کے درمیاں
میرا ہنر میری ریاضت دم بخود ہے
مری چشم تصور پر یہ منطر کس لیے کھلتا نہیں ہے

younus khayyal

About Author

5 Comments

  1. Aisha

    دسمبر 1, 2020

    As always again mind blowing usage of words to show. True depiction of human feelings ❤️❤️

  2. DuaAzeemi

    دسمبر 1, 2020

    حس جمالیات سے پر

  3. Sehrash

    دسمبر 1, 2020

    واااہ بہت اعلی بہت خوبصورت

  4. رفیق سندیلوی

    دسمبر 1, 2020

    رسائی میں نارسائی اور نارسائی میں رسائی کا احساس دلاتی ہُوئی نظم

  5. گوشہ ء ادب

    دسمبر 1, 2020

    ہمیشہ کی طرح خوبصورت خیالات اور احساسات سے بھرپور نظم، دل کو چھوتی ہوئی ،پروردگار آپ کے ذہن کی کھیتی کو مزید زرخیزی عطا فرمائے۔امین ثم امین

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی